ایرانی ٹی وی کی ایک نیوز اینکر کی جانب سے دفتر میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات لگائے جانے کے بعد دیگر ایرانی خواتین نے بھی اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس سے قبل ایران میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے موضوع کو اہمیت دیے جانے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔
شینا شیرانی ایران کے انگریزی زبان کے سرکاری نیوز چینل پریس ٹی وی پر خبریں پڑھتی تھیں، انھوں نے اپنے دو سینیئر مینیجروں کی جانب سے طویل عرصے سے جنسی ہراسانی کے واقعات کو منظر عام پر لا کر اس راویت کو توڑ دیا ہے۔
ان کے الزامات اس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انھوں نے فون پر ہونے والی ایک بات چیت کو آن لائن پوسٹ کر دیا جس میں ایک مرد جو ممکنہ طور پر ان کے باس حامد رضا عمادی ہیں، شیرانی سے جنسی فائدہ حاصل کرنےکی کوشش کررہے ہیں۔
شیرانی نے اس واقعے کے بعد نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ملک سے باہر چلی گئیں اور وہاں جا کر یہ آڈیو فائل آن لائن پوسٹ کر دی، جس کو اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد لوگ سن چکے ہیں۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر عمادی کی جانب سے بھیجے جانے والے ان پیغامات کی تصویر بھی ڈال دی ہے جس میں وہ ان سے یہ آڈیو فائل ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر عمادی کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ آڈیو فائل جھوٹی ہے۔
لیکن خلاف توقع پریس ٹی وی نے اعلان کر دیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے تک اس نے اپنے دو ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔
خیال ہے کہ ان میں سے ایک عمادی ہیں جبکہ دوسرے شخص پر بھی شیرانی کی جانب سے جنسی ہراسانی کا الزام ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں پریس ٹی وی نےکہا ہے کہ ’حالانکہ اس آڈیو فائل کی صداقت کے بارے میں ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے،
لیکن چونکہ یہ واقعہ سنگین نوعیت کا ہے اس لیے متعلقہ حکام اس کی خصوصی طور پر تفتیش کر رہے ہیں۔‘
اس کے جواب میں شیرانی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ جن سینیئر حکام کے پاس انھیں شکایت لے کر جانی تھی وہ خود اس کیس میں ملوث تھے۔
شیرانی نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران جیسے معاشروں میں اگر آپ کی طاقت ور افراد سے دوستی نہیں ہے تو آپ کمزور ہیں اور آپ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے،
اور اگر آپ عورت ہیں اور اپنے بچے کی اکیلے کفالت کر رہی ہیں تو پھر آپ کو معاشرے میں کوئی باعزت مقام نہیں مل سکتا۔‘
شیرانی نے بتایا کہ جنسی ہراسانی کے علاوہ انھیں کئی اور طریقوں سے بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے، جس میں کچھ منٹ دیر سے دفتر آنے اور سرکاری اداروں میں خواتین کے لیے مخصوص لباس کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ وہاں مجھے ایک نیوز ریڈر کے طور پر نہیں، بلکہ ایک جنسی شے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔‘
شیرانی کے اس طرح کھل کر اظہار کرنے سے ایران جیسے ملک میں بھی دفاتر میں جنسی ہراسانی کے موضوع پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر شیرانی کے اس اقدام کی حمایت کی جارہی ہے۔
شیرانی کی دیکھا دیکھی بہت سی دیگر خواتین نے بھی اپنے تجربات سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ایک خاتون نے لکھا ہے کہ ’ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں جاکر ہم تکلیف دینے والی ان گندی نظروں اور گندے الفاظ کی شکایت کر سکیں۔ بلکہ اگر شکایت کی بھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ یہ آپ ہی کی غلطی تھی کہ آپ ان مردوں کے ساتھ بے تکلف ہوئیں، بناؤ سنگھار اور خوشبو کا استعمال کرتی رہیں، اور مسکراتی رہیں۔‘
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا ہے کہ ان کی ایک ساتھی خاتون نے دفترمیں مستقل ہراساں کیےجانے کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔
کچھ لوگوں نے اس واقعے کا ذمہ دار ایرانی معاشرے کی قدامت پرست روایت کو ٹھہرایا ہے جس میں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے۔
ایک فیس بک صارف نے لکھا ہے کہ ’ایسے گھٹے ہوئے معاشرے میں جہاں مذہبی جانب داری بھی ایک مسئلہ ہو وہاں اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ ’ہمیں اپنے لڑکوں کی پرورش کرتے وقت ان کو عورت کی عزت کی اہمیت بھی بتانی چاہیے۔ ہماری خواتین سڑک پر چلتے وقت محفوظ نہیں، دفاتر تو دور کی بات ہیں۔‘