Monday 29 February 2016

ایران میں بحرینی سیاحوں کی بس نذرآتش

خلیجی ریاست بحرین کے وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ایران میں شرپسندوں نے بحرین کے سیاحوں کو لے جانے والی ایک بس پر حملہ کر کے اسے نذرآتش کر دیا ہے۔
العربیہ ٹی وی کے ذرائع کے مطابق منامہ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ تہران میں سیاحوں کی بس کو نذرآتش کیے جانے کے بارے میں مزید تفصیلات جمع کر رہےہیں تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا اس کارروائی میں سیاح محفوظ رہے ہیں یا نہیں۔
سوشل میڈٰیا پر سامنے آنے والی ایک فوٹیج میں ایک بس کو نذرآتش کرتے دکھایا گیا ہے،جس کے بعد بحرین نے اس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ 
تاہم ایران کی جانب سے اس حوالے سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔
خیال رہے کہ بحرین نے سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کے طورپر 4 جنوری کو ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منطقع کرتے ہوئے ایرانی سفارتی عملے کو منامہ سے نکال دیا تھا۔

Sunday 28 February 2016

مقتل وهلاك اثنين من القوات المسلحة الايرانية التابعة للحرس الثوري.

أعلنت حركة. ...مسؤوليتها عن هلاك اثنين من قوات الحرس الثوري الإيراني في منطقة. ..التابعة لمدينة. ...السنية جنوب شرق البلد 
وجاء في البيان الصادر عن المنابع الخبرية التابعة للحركة بأن أبطال من قناصي الحركة بفضل من الله و توفيقه تمكنوا في البارحة الموافق ل26من فبراير/تشرين الثاني 2016 بقنص اثنين من المحتلين الموجودين في قاعدة عسكرية تابعة للحرس الثوري الإيراني ما أدى إلى مقتل وهلاك اثنين من الحراس على القاعدة 
وجاء أيضا في البيان الذي تبنته الحركة بأن اﻷبطال رجعوا سالمين الى معسكرهم

Saturday 27 February 2016

جیش العدل کے مجاھدین نے کل رات 2016 ۔ 02 ۔ 26 کو ایرانی کے دو(2) فوجیوں کو جہنم وصل کیا

جیش العدل کے مجاھدین نے کل رات کو ایران کے شہر سراوان کے علاقے انجیریان کےمقام پر ایک فوجی کیمپ پر ایرانی فوجی محافظوں کو سنیپر سے نشانہ بنایا ۔
 وھاں گارڈ پر مامور (2) فوجیوں کو جہنم وصل کیا ۔ الحمدللہ جیش العدل کے نشانہ باز مجاھدین نے ایران کی سپاہ پاسداران کے (2)فوجیوں کو سنیپر گن سے نشانہ بنا کر فتل کیا ۔
 مجاھدین جیش العدل الحمدللہ بحفاظت اپنے کمپ میں پہنچ گئے    

Friday 26 February 2016

ایک اور ایرانی جنرل .. جنرل حمزہ کاظمی حلب شام میں جہنم واصل


سعودیہ کی کامیاب سفارت کاری، ایران افریقا سےبے دخل!

ایرانی مداخلت پربات چیت کے لیے سعودی وزیرخارجہ کا دورہ افریقا
ایران میں چند ہفتے قبل سعودی عرب کے سفارت خانے اور قونصل خانے پربلوائیوں کے حملوں کے بعد افریقا کے ممالک نے تہران کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کردی ہے۔
 یہ تبدیلی جہاں ایران کی بلا جواز مداخلت کا نتیجہ ہے وہیں اس میں سعودی عرب کی کامیاب سفارت کاری کا بھی کلیدی کردار ہے۔
 حال ہی میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے چار افریقی ملکوں کا دورہ کیا۔ 
اپنے اس دورے کے دوران انہوں ںے افریقی سیاسی قیادت سے عرب ممالک میں ایرانی مداخلت پر تفصیلی بات چیت کی۔
سعودی وزیرخارجہ نے افریقا کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب خطے میں ایران کے اثرو نفوذ میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران ایران نے چالاکی کے ساتھ افریقی ممالک کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی تھی اور قرن افریقا کے 30 ملکوں میں اپنے سفارتی مشنوں کے اسٹیٹیس کو کئی درجے بڑھا دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ایرانی رجیم نے افریقا میں مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی آڑ 
میں بالواسطہ اور براہ راست اپنا اثرو رسوخ بڑھابے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کا یمن اور شام کی جنگ کی طرف متوجہ ہونے سے تہران کو افریقی ملکوں میں اپنے پاؤں پھیلانے کا موقع ہاتھ آگیا مگر سعودی عرب کی کامیاب سفارت کاری نے ایران کو افریقی ملکوں سے چلتا کردیا گیا ہے۔
سعودی عرب کےفرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سنہ 1970ء کےعشرے کے دوران شاہ فہد بن عبدالعزیز کی پالیسی کو اپناتے ہوئے افریقی ممالک میں اپنا اثرو رسوخ اور تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی ہے۔
 شاہ فیصل مرحوم نے افریقی ممالک سے اس نہج پر تعلقات استوار کیے کہ اس کے نتیجے میں اسلامی تعاون تنظیم کے قیام اور اسے مزید موثر بنانے کا موقع ملا۔
افریقا سے تعلقات کی بہتری کے لیے جاری مساعی کے تحت سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے سوڈان اور اس کے بعد زامبیا کا دورہ کیا۔ انہوں نے ادیس ابابا میں افریقی یونین کی سربراہ قیادت سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
عادل الجبیر کا دورہ افریقا اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سعودی عرب کی قیادت میں تین درجن مسلمان ملکوں کے دہشت گردی کے خلاف ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھی ہے۔
 دہشت گردی کی بیخ کنی میں افریقی ممالک بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
سعودی قیادت کے حالیہ افریقی دوروں سے قبل اور تہران میں سعودی سفارت خانے پرحملے کے بعد افریقی ملکوں میں ایران کے اثرو نفوذ میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا مگرافریقا کے بڑے عرب ملکوں سوڈان، جیبوتی، جزرالقمر اور کئی دوسرے ملکوں نے ریاض کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایران سےسفارتی تعلقات منطقع کرلیے تھے۔

Thursday 25 February 2016

شہید ناصر شاہ بخش


شامی 'کافر' قوم ہے: ایرانی رہبر کی نئی درفطنی

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے شامی قوم کو ’’کفار‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'تہران ،شام میں کافروں سے نبرد آزما ہے اور ہمارے فوجی شام 
کی سرزمین پرکفار سے اسلام کی جنگ لڑنے کے لیے اجازت طلب کررہے ہیں۔'
خبر رساں ایجنسی ’’فارس‘‘ کے مطابق خامنہ ای کا یہ متنازع بیان دستوری کونسل کے سیکرٹری جنرل حمد جنتی نے نقل کیا ہے۔ 
ان کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر نے یہ الفاظ گذشتہ ہفتے تہران میں 46 ایرانیوں کے جنازے کے موقع کہے۔ احمد جنتی کا کہنا ہے کہ میں یہ تصور نہیں کرتا تھا کہ سپریم لیڈر اس نوعیت کا بیان علانیہ کسی محفل میں کریں گے۔
 تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے فوجی شام میں اپنے دفاع کی جنگ نہ لڑتے تو یہ جنگ ہمیں ایران کے کرمان شاہ اور دوسرے علاقوں میں لڑنا پڑتی۔
احمد جنتی کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر نے اپنے خطاب میں شام میں جاری لڑائی کو اسلام اور کفر کے درمیان جنگ قرار دیا۔ 
انہوں نے کہا کہ شہادت کا دروازہ عراق ۔ ایران جنگ کے خاتمے پربند ہوگیا تھا اور اسے شام کے محاذ پر دوبارہ کھولا گیا ہے۔
 اب نوجوان شام میں لڑائی کے لیے جانے پر ہم سے اجازت مانگنے پر اصرار کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم لیڈر کی جانب سے شامی قوم کو' کافر' قرار دینے کا بیان کوئی انوکھا نہیں۔
 اس سے قبل بھی وہ متعدد مواقع پر شام میں مرنے والے پاسداران انقلاب کو 'شہداء 'قرار دیتےرہے ہیں جو ان کے بہ قول تکفیریوں کے خلاف اور اہل بیت کے دفاع میں لڑتے ہوئے مارے گے۔
 ان کا کہنا ہے کہ' شام میں شہید ہونے والے فوجیوں کے لیے ہجرت اور جہاد کے دو اجر ہیں۔ '

ایرانی بلوچستان کے ایک گاؤں کے تمام مرد قتل کرنے کا ایرانی اعتراف

’منشیات کیسز کی آڑ میں سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھائے جانے کا الزام‘

ایران میں سیاسی انتقام کے تحت شہریوں کو ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارے جانے کے واقعات کے جلو میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان سے متصل شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں ایرانی فورسز نے ایک گاؤں کے تمام مردوں کو پھانسی دے کر قتل کر دیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایرانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے صدر کی معاون خصوصی برائے خواتین اور عائلی امور شہیندخت مولاوردی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ جوڈیشل حکام نے مشرقی ایران کے صوبہ بلوچستان کی ایک بستی کےتمام مرد موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ 
مولا وردی کا دعویٰ ہے کہ قتل کیے گئے تمام افراد منشیات کے دھندے میں ملوث بتائے جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان تمام افراد کو منشیات کیسز میں نہیں بلکہ سیاسی انتقامی کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں طویل عرصے سے احساس محرومی کے خلاف وہاں کی سنی اکثریتی آبادی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔
 معاشی ابتری اور سماجی عدم مساوات کے شکار بلوچ شہریوں کے خلاف ایرانی فورسز طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنے کے ساتھ ملک کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے الزامات کے تحت بڑی تعداد میں وہاں کے کارکنوں کو تختہ دار پرلٹکا جا چکا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد ان کے علاوہ ہیں۔
گوکہ ایرانی صدرکی خاتون معاون خصوصی نے اس بستی کا نام ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کی شناخت ظاہر کی ہے۔
 تاہم انہوں نے ریاستی اداروں کی جانب سے پھانسی دے کرہلاک کردہ شہریوں کے ورثاء کے لیے امدادی پروگرامات ختم کرنے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ 
ان کا کہنا ہے کہ پھانسی دے کر ہلاک کیے گئے افراد کے بچوں کی امداد بند کرکے مستقبل میں انہیں انتقامی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’’مہر‘‘ کے مطابق مسز مولا وردی نے ایرانی پولیس اور جوڈیشل حکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طورپر بلوچستان کے ایک شہری کو جانتی ہوں جسے جیل میں ڈالا گیا۔
 جیل میں ڈالے گئے ملزم کی تمام جائیداد حتیٰ کہ اس کا مکان بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے جہاں اس کی بیوی اور تین کم سن بچے رہائش پذیرتھے۔
مولا وردی نے استفسار کیا ہے کہ حکومت کی قانونی ذمہ داریاں کہاں ہیں۔ 
اس خاتون اور اس کے تین بچوں کی کفالت کا کون ذمہ دار ہے جن کا اکلوتا سرپرست اٹھا کر جیل میں ڈالا دیا گیا اور ان کی تمام جائیداد بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ کیا ایرانی حکام کو اس خاتون اور اس کے بچوں کی احساس محرومی کا اندازہ ہے؟۔
انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی جوڈیشل حکام کو شہریوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈالنے اورانہیں پھانسی دینے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
 ان کا کہنا تھا کہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے اگرکوئی شخص منشیات جیسے غیرقانونی دھندے کی جانب جانے پرمجبور ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے۔
 ایسے لوگوں کو پھانسیاں دینے سے قبل حکومت کو اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیے۔

یمن میں حزب اللہ اور ایران کے جنگجو مارے گئے، سعودی مشیر دفاع

سعودی وزیر دفاع کے فوجی مشیر بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری نے باور کرایا ہے کہ سعودی حکام کے پاس "طویل عرصے سے اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ حزب اللہ کے ارکان اجرت پر حوثیوں کو تربیت دینے میں مصروف ہیں"۔
الحدث نیوز چینل سے ٹیلیفونک گفتگو میں عسیری نے واضح کیا کہ "حوثیوں کے لیے حزب اللہ کی سپورٹ کے بارے میں ہمارے پاس ریکارڈنگز اور انٹیلجنس معلومات ہیں"۔
 انہوں نے انکشاف کیا کہ "ملیشیاؤں کی صعدہ سے دماج منتقلی حزب اللہ کی نگرانی میں پانی کے ٹینکروں کے ذریعے عمل میں آئی"۔
عسیری نے "یمن میں اجرت پر لڑنے والے حزب اللہ اور ایران کے جنگجوؤں کی ہلاکتوں" کے بارے میں بھی بات کی۔
انہوں نے واضح کیا کہ "حزب اللہ کسی ترقیاتی یا تعلیمی منصوبے کے تحت یمن نہیں آئی ہے... حزب اللہ ملیشیا اور حوثیوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد 2216 کی کھلی خلاف ورزی کی ہے..
 حوثی جنگجو اور حزب اللہ کی ٹولیاں سعودی عرب کے خلاف لڑائی میں بچوں تک کو جھونک رہے ہیں"۔
اسی سیاق میں سعودی وزیردفاع کے فوجی مشیر کا کہنا تھا کہ " لبنانی حکومت کو چاہیے کہ وہ حزب اللہ کو اپنے تنخواہ دار جنگجو بیرون ملک بھیجنے سے روکے"۔ ان کے خیال میں "حزب اللہ کے خلاف کڑا اقدام کرنا چاہیے جو اپنے اجرتی ارکان کو شام اور یمن بھیج رہی ہے"۔

Wednesday 24 February 2016

کویت کی لبنان سے اپنے شہریوں کو نکل جانے کی ہدایت

کویتی لبنان میں سفر کے دوران پیشگی حفاظتی تدابیر اختیار کریں: سفارت خانے کا انتباہ
بیروت میں کویتی سفارت خانے نے اپنے ملک کے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ لبنان سے فوری نکل جائیں اور اس ملک میں غیر ضروری سفر سے بھی گریز کریں۔
سفارت خانے نے بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں کویتیوں پر زوردیا ہے کہ وہ لبنان میں سفر کے دوران پیشگی حفاظتی تدابیر اختیار کریں اور غیر محفوظ مقامات کی جانب جانے سے گریز کریں۔
بیان میں کویتی شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سفارت خانے سے رابطے میں رہیں تاکہ انھیں محفوظ اور مامون رکھنے کے لیے ضروری انتظامات کیے جاسکیں۔
سفارت خانے نے لبنان کے سفر پر روانہ ہونے کے خواہاں کویتیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔
اس سے ایک روز قبل ہی سعودی عرب اور بحرین نے بھی اپنے شہریوں کو لبنان کے سفر سے گریز کی ہدایت کی تھی اور متحدہ عرب امارات نے اپنے شہریوں کے لبنان جانے پر مکمل پابندی عاید کردی تھی۔
 سعودی حکومت نے اس ملک میں موجود اپنے شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ جلد سے جلد وہاں سے واپس آجائیں۔
سعودی عرب نے سوموار کے روز لبنان کے لیے قریباً چار ارب ڈالرز کی فوجی امداد معطل کردی تھی اور اس فیصلے کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ بیروت سعودی مملکت کی شیعہ ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران حمایت میں ناکام رہا ہے اور اس نے تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین کے حملے کی بھی مذمت نہیں کی تھی۔
سعودی عرب کے اس فیصلے کے بعد خلیج تعاون کونسل میں شامل چار عرب ریاستوں نے اپنے شہریوں کے لیے سفری انتباہ جاری کیا ہے اور انھیں لبنان نہ جانے کی ہدایت کی ہے۔
ان ممالک کے اس فیصلے سے لبنان کی سیاحت کی صنعت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایسے مناظر جسے دیکھ کر ہر مسلمان کے دل کو سکون مل جاتا ہے.




یہ ہے وہ قافلہ جس میں سوریا کے لاکهوں مظلوم سنیوں کے قاتل عالمی دہشتگرد تنظیم " حزب الشیطان " کے دہشتگردوں کی لاشیں لے جائی جارہی ہیں.

Tuesday 23 February 2016

سعودیہ: ایرانی جاسوسوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ

سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل نے ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں 
عدالتوں میں پیش کیے گئے 16 ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کی ایک خصوصی فوج داری عدالت نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر اور محکمہ تعلیم سے پچیس سال سے وابستہ ایک ملزم کا ٹرائل جاری ہے۔
 ان پر ایران کے لیے جاسوسی کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق فوج داری عدالت میں جاری سولہ ملزمان کے ٹرائل کے دوران ان پر ملک سے بد دیانتی، دشمن ملک ایران کے انٹیلی جنس اداروں کی خاطر سعودی عرب کی حساس معلومات چوری کرنا، فوج اور سیکیورٹی اداروں سے متعلق معلومات دشمن کو مہیا کرنا، ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانا، ملک کے حساس اداروں اور اقتصادی مراکز کو نقصان کے لیے انو ہزار یورو کی رقم حاصل کرنا، غیرقانونی اسلحہ رکھنا اور حساس معلومات بیرون ملک ارسال کرنا جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔

تہران سے پاسداران انقلاب کا آفیسر " احمد اسماعیلی " شام میں ماردیا گیا۔


پاکستانی نوجوانوں کی شام ،عراق اور یمن میں جاکر جنگ میں شرکت

لاہور (نیوزڈیسک)پاکستانی نوجوانوں کا شام ،عراق اور یمن میں جاکر جنگ میں شریک ہونا قابل تشویش ہے ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ایرانی رہنماعلی ولایتی کی طرف سے پاکستانی نوجوانوں کو شام کی جنگ میں شریک کرنے کے اعتراف پروزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو ایرانی حکومت سے باضابطہ بات چیت کرنے کا حکم دیں ،
پاکستانی نوجوانوں کو بھرتی کرکے عراق اور شام کی جنگ میں شامل کرنا پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی بدترین کوشش ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
 یہ بات پاکستان علماءکونسل کے مرکزی چیئرمین اور وفاق المساجد پاکستان (رجسٹرڈ) کے صدر حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام نے کبھی دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کی لیکن ایرانی حکومت کی طرف سے پاکستانی نوجوانوں کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے بھرتی کرنا اور شام کی عوام کیخلاف جنگ میں شریک کرنا انتہائی افسوسناک اور پاکستان کے داخلی اور خارجی مفادات کیخلاف ہے۔
 پاکستان علماءکونسل نے ماضی میں بھی حکومت کی اس طرف توجہ دلائی تھی اور وزیر اعظم اوروزارت داخلہ کی طرف سے اس پر ایکشن کا کہا گیا تھا لیکن ایک ایرانی حکومت کے ذمہ دار کی طرف سے اس بات کا واضح اعتراف حکومت پاکستان کیلئے ایک غور طلب اور فکر انگیز صورتحال کو واضح کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کے تحت جس طرح داعش کے نظریہ اور فکر سے ہمدردی رکھنے والوں کیخلاف ایکشن لیا جارہا ہے اسی طرح پاکستانی نوجوانوں کو شام، عراق اور یمن کی جنگ کیلئے بھرتی کرنے والوں کیخلاف بھی فوری ایکشن لیا جائے کیونکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات چاہنے والی قوتیں ماضی میں بھی پاکستانی نوجوانوں کو بیرونی دنیا سے تربیت دلواکر پاکستان میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کرچکی ہیں ۔

Monday 22 February 2016

ایک ہفتے میں 68 ایرانی فوجی شام میں ہلاک

ایرانی پاسداران انقلاب کے 68 اہلکار ایک ہفتے کے دوران شامی اپوزیشن کے خلاف 'داد شجاعت' دیتے ہوئے شام میں ہلاک ہوئے۔
 ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق مرنے والے پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی اکثریت شمالی حلب کے مضافات میں ہونے والی خونریز لڑائی میں 'کام' آئے۔
ایرانی پاسداران انقلاب نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ شامی اپوزیشن سے جھڑپوں میں ان کے اہم جنرل حمید رضا انصاری ہلاک ہوئے۔
 جنرل انصاری کا تعلق پاسداران انقلاب کی روح اللہ کور سے تھا جو ان دنوں وسطی ایران کے شہر اراک میں 'خدمات' سر انجام دے رہی ہے۔
شام میں ایرانی جنگجوؤں کی خبریں جاری کرنے والے ویب پورٹل 'مدافعین حرم' کے مطابق مرنے والے ایرانیوں میں اعلی فوجی افسران بھی شامل ہیں، ان میں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں سمیت الباسیج ملیشیا کے رضاکاروں کی بڑی تعداد شامل ہے جو شمالی شام میں جاری لڑائی میں جان گنوا بیٹھے۔
ویب پورٹل کے مطابق حالیہ چند ہفتوں کے دوران الباسیج ملیشیا اور پاسدران انقلاب کے اہکاروں کی شام میں ہلاکتوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 
بعض رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی فوج، افغانستان، عراق اور پاکستان سے شیعہ ملیشیا کے اہلکار بھی شام پہنچے ہیں۔ شامی اپوزیشن کے خلاف لڑنے والے ان غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
ادھر ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کی ایک تصویر جاری کی ہے جس میں وہ تہران میں زیر علاج ان فوجیوں کی عیادت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں جو شامی اپوزیشن کے خلاف لڑتے ہوئے زخمی ہوئے۔
'صراط نیوز' ویب پورٹل نے بتایا کہ جنرل سلیمانی نے اتوار کے روز امیر حسین 
حاجی نصیری سمیت متعدد ایرانی فوجیوں کی تہران کے ہسپتالوں میں عیادت کی۔
'العربیہ ڈاٹ نیٹ' نے دو ہفتے قبل ایرانی ویب پورٹلز کے حوالے سے بتایا تھا کہ تہران میں پاسداران انقلاب کے 'بقیہ اللہ' ہسپتال میں 1500 زخمی فوجیوں سمیت عراق، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے شیعہ ملیشیا کے مضروبین زیر علاج ہیں۔
 یہ تمام افراد شام میں اپوزیشن کے خلاف لڑائی میں زخمی ہوئے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے شام میں زمینی کارروائی کے اعلان کے بعد سے ایران نے شام میں اپنی لڑاکا فورس میں دگنا اضافہ کر دیا ہے اور وہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بشار الاسد کو شکست سے بچانے میں مصروف ہے۔ ایران، اپنے حلیف بشار الاسد کو بچانے کے لئے شام میں فضائی کارروائی کا بھی عندیہ دے چکا ہے۔

Sunday 21 February 2016

لبنانی حکومت سے حزب اللہ کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ

سعودی عرب کی جانب سے لبنان کی سیکیورٹی فوسز کی امداد روکے جانے کے اعلان کے ردعمل میں جہاں بعض سیاسی جماعتوں نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے وہیں ملک بیشتر سیاسی قیادت سعودی اقدام کو ایران نواز حزب اللہ کی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق لبنان کی ایک سرکردہ سیاسی جماعت ’لبنانی فورسز‘ کے سربراہ سمیر جعجع نے سعودی عرب کی جانب سے لبنانی فوج کی امداد روکنے کی تمام ذمہ داری حزب اللہ پرعاید کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ حزب اللہ کو ریاض پر یلغار سے روکے۔ 
ادھر لبنانی کابینہ کے حزب اللہ مخالف وزیرعدل اشرف ریفی نے میچل سماحہ کیس کو اعلیٰ عدالتی کونسل میں پیش نہ کیے جانے کے خلاف بہ طور احتجاج استعفیٰ پیش کردیا ہے۔
وزیر انصاف کے استعفے سے متعلق الحدث ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سمیر جعجع نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مارچ گروپ 14 حکومت میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے لبنان اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو کابینہ میں مزید وزراء بھی اپنے استعفے دے سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سمیر جعجع نے بیروت حکومت کے حزب اللہ کے حوالے سے اختیار کردہ موقف کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حزب اللہ کو سعودی عرب کے خلاف جارحیت اور بلا جواز الزام تراشی سے منع کرے۔
ادھر لبنانی رکن پارلیمنٹ سامی الجمیل نے ’العربیہ‘ سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ لبنان ایران کا باجگزار ملک بننے جا رہا ہے۔
 انہوں نے کہا کہ لبنانی قوم سعودی عرب کے احسانات کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ 
سعودی بھائیوں نے مشکل وقت میں کئی سال تک ہماری مدد کی۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے بیروت کے بعض متنازعہ اقدامات کے باعث لبنان کی فوجی امداد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 
اس اعلان کے بعد لبنان کی بیشتر سیاسی قیادت نے سعودی اقدام کو ایران نواز حزب اللہ کی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔

بحرین : ایرانی مداخلت کا سامنا کرنے کے لیے اقدامات

بحرین کے وزیر داخلہ الشيخ راشد بن عبدالله آل خليفہ کا کہنا ہے کہ ایران کی مداخلتوں پر روک لگانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔
 ان اقدامات میں عطیات کی نگرانی، سفر کے لیے اصول و ضوابط وضع کرنا اور امام بارگاہوں کے امور کو "منظم" کرنا شامل ہیں۔ واضح رہے کہ منامہ حکومت ایران پر حزب اختلاف کو سپورٹ کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔
سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق وزیر داخلہ نے اتوار کے روز مذہبی شخصیات، ارکان پارلیمنٹ اور مقامی اخبارات کے چیف ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران "داخلی امن و امان میں ایرانی مداخلتوں کے حجم اور خطرے" کے بارے میں گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے اقدامات شروع کر دیے ہیں جن میں مالی رقوم کی منتقلی اور عطیات جمع کرنے کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے کمیٹی کی تشکیل شامل ہے، یہ اقدام دہشت گردی کے لیے مالی رقوم کی فراہمی اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی کارروائیوں کے سدباب کے سلسلے میں ہے"۔
الشيخ راشد نے "14 سے 18 سال کے شہریوں کے سفر اور تمام شہریوں کے غیر محفوظ ممالک کے سفر سے متعلق اصول و ضوابط وضع کرنے" کے بارے میں بھی بات کی۔
بحرین نے کچھ عرصہ قبل ایران سے تعلق رکھنے والے "دہشت گرد گروہوں" کو حراست میں لینے کا اعلان کیا تھا۔
 ان گروہوں کے کئی ارکان نے ایرانی پاسداران انقلاب سے تربیت حاصل کی تھی یا پھر تہران کی حمایت یافتہ شیعہ تنظیم حزب اللہ سے تربیت حاصل کرنے کے لیے لبنان کا سفر کیا تھا۔
مذہبی پہلو کے حوالے بحرینی وزیر داخلہ نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ "دین کے منبر کو مذہبی اور سیاسی شدت پسندی اور اشتعال انگیزی سے محفوظ رکھا جائے اور امام بارگاہ کو سیاسی مقاصد اور انارکی پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں پر قابو پایا جائے...
 یہ امر اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس کے ایام اور اوقات مقرر کیے جائیں اور اس کے ناظمین کی ذمہ داری بھی متعین کی جائے... ہم کسی طور بھی مذہبی ایام کے موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انارکی پھیلانے اور نظام میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے"۔
بحرین میں 2011 سے اپوزیشن رہ نماؤں کے زیرقیادت شاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ کی حکومت کے خلاف احتجاجات پھوٹ پڑے تھے جنہوں نے بعد ازاں ہنگاموں، بلوؤں اور پولیس کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی شکل اختیار کر لی۔
منامہ حکومت کئی مرتبہ ایران سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروپوں کو پکڑنے کا اعلان کرچکی ہے، ان میں پانچ نومبر کا واقعہ بھی شامل ہے۔
بحرینی وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں گرفتار ہونے والوں کی تعداد "76" تک پہنچ گئی ہے۔
 انہوں نے مزید بتایا کہ "ہم ناقابل تردید ثبوت کے بغیر کسی پر الزام عائد نہیں کریں گے"، ان کے خیال میں ایران نے "بحرین میں اپنی کسی بھی سطح کی موجودگی سے اپنے توسیعی مقاصد پر عمل درامد کرنے کے لیے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی"۔
بحرین نے جنوری میں ایران کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اقدام ریاض حکومت کے اسی کے مماثل اقدام کے بعد کیا گیا جب سعودی عرب نے ایران میں اپنے سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملوں کے بعد جواب میں تہران سے تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ ان سفارتی مشنوں کو ریاض میں شیعہ رہ نما شیخ نمر النمر کی سزائے موت پر احتجاج کرنے والوں نے حملوں کا نشانہ بنایا تھا

جیش العدل کے چھوٹے مجاھد



سعودی عرب : 32 افراد پر ایران کے لیے جاسوسی پر فردِ جُرم

سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں ایک خصوصی فوجداری عدالت میں بتیس مشتبہ افراد کے خلاف یران کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرد جرم پیش کردی گئی ہے۔
ان کے خلاف یہ فرد جرم سعودی عرب کے انوسٹی گیشن بیورو اور محکمہ استغاثہ نے تیار کی ہے۔
ان میں تیس الزام علیہان کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی علاقے القطیف سے ہے۔ایک ملزم ایرانی اور ایک افغان ہے۔
 استغاثہ نے ان کے خلاف ایک تفصیلی فرد الزام تیار کی ہے۔
ان پر الزام عاید کیا گیا ہے کہ انھوں نے ایرانی انٹیلی جنس کے ارکان کے ساتھ تعاون سے ایک جاسوسی یونٹ قائم کیا تھا اور انھوں نے فوجی شعبے سے متعلق انتہائی اہم اور حساس معلومات ایرانیوں کو فراہم کی تھیں۔

 استغاثہ کے مطابق ملزموں نے دفاعی حکمت عملی سے متعلق ایرانیوں کو معلومات فراہم کی تھیں اور سعودی مملکت کے مفادات اور اہم اقتصادی تنصیبات کو تخریبی کارروائیوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔
انھوں نے امن عامہ کو تہ وبالا کرنے ،کمیونٹی کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اوربد امنی اور فرقہ واریت کے بیج بونے کی بھی کوشش کی تھی۔
 ان میں سے بعض نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ایرانی انٹیلی جنس کے ارکان کی مدد اور تعاون سے القطیف میں مظاہروں اور بلووں کا اہتمام کیا تھا اور ان میں حصہ لیا تھا۔
 ملزموں نے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افراد کو بھرتی کرنے کے لیے 
کام کیا تھا تاکہ انھیں ایرانی انٹیلی جنس کے مفاد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔انھوں نے ایک خفیہ سوفٹ وئیر کو بروئے کار لاتے ہوئے ایرانی انٹیلی جنس کو ای میلز کے ذریعے بہت سی خفیہ رپورٹس بھی بھیجی تھیں۔
 انھوں نے سعودی عرب مخالف کارروائیوں میں حصہ لیا اور ملک اور اس کے بادشاہ کے خلاف بغاوت کا ارتکاب کیا تھا۔
ان کے قبضے سے ممنوعہ کتابیں ،تشہیری مواد اور کمپیوٹر ڈیوائسز ملی تھیں جس سے سعودی عرب کی سلامتی اور امن عامہ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔

Friday 19 February 2016

جیش العدل کے مجاھدین نے کل ۔ 2016 ۔ 02 ۔ 19 کو ایران کے کئی فوجیوں کو جہنم وصل کیا

جیش العدل کے مجاھدین تمام اہلسنت کو اطلاع دی جاتی ہیں کہ کل  2016 ۔ 02 ۔ 19 کو جیش العدل کے مجاھدین نے ایران کے شہر سراوان کے علاقے کوھک میں ایک ایرانی فوجی گاڑی اور ایک موٹر سائیکل کو بم دھماکے سے اڑا دیا جن میں سوار  فوجی افسروں سمیت کئی ایرانی فوجی ہلاک و زخمی ھوے ۔
 اس واقع کے بعد ایران کے حکومت نے اپنے بدنامی کو چھپانے کی وجہ سے اپنے فوجی لاشوں اور زخمیوں اور تباہ شدہ گاڑی اور موٹرسائیکل کو وھاں سے اٹھا کر مخفی جگہ پر لے گئے ۔ 
  الحمدللہ مجاھدیں فدائیان جیش العدل بحفاظت اپنے کیمپ میں پہنچ گئے ۔ 
جیش العدل کے مجاھدین ایرانی روافض افواج و خامناہ ای اور اسکے مزدوروں کو خبردار کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ جب تک بے گناہ اہلسنت کے پکڑ دھکڑ اور پانسی کو نہ روکھا گیا تو جیش العدل کے جان فدا مجاھدین ایسے حملے کرتے رہیں گے اور ایران کو رافضیوں کے قبرستان بنادیںگے ۔   انشاء اللہ

Wednesday 17 February 2016

ایرانی تجربہ یمن میں ہرگز کامیاب نہیں ہوگا

یمنی صدر کا حوثیوں کے خفیہ معاہدے اور حزب اللہ کے خط کا انکشاف

یمنی صدر عبدربه منصور هادی نے ایک مرتبہ پھر ایران پر حوثی ملیشیاؤں کی فنڈنگ کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے یہ الزام منگل کی شب انقرہ میں اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوگان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں دہرایا۔
 اس موقع پر اپنے ملک میں ایران کی حالیہ مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے یمنی صدر نے باور کرایا کہ ایران کے لیے اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ ملیشیاؤں کو مالی رقوم اور اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ یمنی حکام نے اپنی جیلوں میں ایرانی پاسداران انقلاب اور لبنان کی حزب اللہ کی ملیشیاؤں کے ارکان کو قید میں رکھا ہوا تھا۔
ہادی نے انکشاف کیا کہ انہیں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کا ایک خط موصول ہوا جس سے یمن میں باغی ملیشیاؤں کی سپورٹ اور فتنہ بھڑکانے میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کی ایک بار پھر تصدیق ہوتی ہے۔
 انہوں نے واضح کیا کہ حسن نصراللہ نے خط میں یہ بات پہنچائی کہ "یمن میں برسرجنگ ہمارے ارکان لوگوں کو ریاست کاری سکھانے آئے ہیں !"۔
 اس سے ایک بار پھر ملک میں دہشت گردوں کے باہمی تعلق کا کے شواہد ملتے ہیں۔
ہادی نے حوثیوں اور معزول صدر صالح کے درمیان ایک خفیہ معاہدے کا بھی انکشاف کیا۔
 انقرہ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ "حوثیوں کا سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ عبدالملک الحوثی ان کا مذہبی پیشوا اور "أحمد بن عبدالله صالح" (معزول یمنی صدر کا بیٹا) سیاسی پیشوا ہوگا۔
 مزید یہ کہ یہ لوگ لامحدود مدت تک یمن پر حکمرانی کریں گے، تاہم یمنی عوام نے اس کو مسترد کردیا جس پر حوثیوں نے بغاوت کرڈالی"۔
ہادی کے مطابق ماضی میں یمن میں زیدیوں اور شافعیوں کے درمیان کوئی مسئلہ دیکھنے میں نہیں آیا تاوقت کہ حوثی جنہوں نے ایران میں تعلیم حاصل کی تھی وہ لوٹ کر آئے اور انہوں نے ایرانی تجربے کو یمن منتقل کرنے کا ارادہ کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ "حوثیوں کو بتا دیا گیا تھا کہ ایرانی تجربہ یمن میں ہرگز کامیاب نہیں ہوگا۔
 اس گروہ کے ساتھ ایک سال تک بات چیت کی گئی جس کے دوران یمن کو 60 برسوں سے درپیش تمام مسائل پیش کیے گئے اور حوثیوں نے 11 متنازعہ نکات بھی پیش کیے ... تاہم ان نقصان پہنچانے والے نکات پر صرف ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے آمادہ ہوا گیا"۔
ہادی نے زور دے کر کہا کہ حوثی جو صعدہ صوبے کی 4 لاکھ 70 ہزار کی آبادی کا 10 فی صد ہیں، وہ اسلحے کے زور پر 2 کروڑ 60 لاکھ یمنیوں پر ایرانی تجربہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ حوثیوں نے نو ماہ سے "تعز" شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے اور وہ اس میں دوائیں اور کھانے پینے کی اشیاء کو داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔
 صدر ہادی نے واضح کیا کہ اس وقت یمن کا 80 فی صد سے زیادہ رقبہ "آئینی حکومت" کے زیرکنٹرول ہے جب کہ صرف 20 فی صد پر حوثیوں کا قبضہ ہے۔
یمنی صدر نے بتایا کہ "ملک میں 15 سے 28 سال کی عمر کے تقریبا 60 لاکھ نوجوان ہیں جن میں یونی ورسٹی اور دیگر اداروں سے فارغ التحصیل 7 لاکھ بے روزگار بھی ہیں۔ 
اس چیز نے ان میں بعض نوجوانوں کو القاعدہ میں شمولیت یا منشیات اور یا پھر خودکشی کی طرف راغب کیا"۔ 
انہوں نے کہا کہ یمن کے حالات نے ملک میں سیاحوں کی آمد اور تیل کی پیداوار روک دی ہے۔ اس کے نتیجے میں تیل کی 36 کمپنیاں ملک سے جاچکی ہیں۔

Monday 15 February 2016

ایران سے کسی ثالثی کی ضرورت نہیں: سعودی عرب

تہران تعلقات بحال کرنے کے تقاضوں کو خود بھی سمجتھا ہے: الجبیر

سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کسی ملک کی ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
 تہران کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی بحالی کیا تقاضے ہیں اور اس باب میں اسے کیا کچھ کرنا ہے۔
اپنے ایک بیان میں سعودی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ایران نے ریاض کے حوالےسے معاندہ روش اپنا رکھی تھی جسے ہر صورت میں تبدیل ہونا چاہیے۔ اگرایران اپنی غیرذمہ دارانہ پالیسی تبدیل نہیں کرتا تو دو طرفہ تعلقات درست نہیں ہو سکتے ہیں۔
عادل الجبیر نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایران کے ساتھ ثالثی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 
جب تک ایران پڑوسی ملکوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتا تب تک کسی تیسرے فریق کی طرف سے مفاہمتی مساعی کا کوئی فایدہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ تعلقات کی بحالی سے قبل ایران کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت اور عرب ممالک میں دخل اندازی کا سلسلہ بند کرتے ہوئے دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کی مدد سے ہاتھ کھینچنا ہو گا۔
خیال رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پچھلے چند برسوں سے کشیدگی چلی آ رہی ہے۔
 دونوں ملکوں میں حال ہی میں اس وقت سرد جنگ شدت اختیار کر گئی تھی جب تہران میں شدت پسندوں نے سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر حملہ کر کے انہیں نذرآتش کر دیا تھا۔
سعودی عرب کو ایران کی جانب سے عرب ممالک میں مداخلت اور دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کی بھی شکایت رہی ہے۔
 ایران اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے عرب ممالک کی تنظیموں کو استعمال کرتا رہا ہے جس پر سعودی عرب نے تہران کو نکیل ڈالنے کی ہمیشہ مثبت کوششیں کیں۔
جب سے سعودی عرب اور ایرن کےدرمیان کشیدگی نے شدت اختیار کی ہے اس کے بعد پاکستان سمیت کئی دوسرے ملکوں نے مفاہمت اور ثالثی کی کوششیں بھی کی ہیں تاہم ابھی تک سعودی عرب اور تہران کے دوطرفہ تعلقات بحال نہیں ہو سکے ہیں۔

Sunday 14 February 2016

جیش العدل کے مجاھدین نے آج 2016 ۔ 02 ۔ 14 کو صبح 9:10 کے ٹیم میں ایک ایرانی فوجی گاڑی کو بم دھماکے سے اڑا دیا

جیش العدل کے مجاھدین تمام اہلسنت کو اطلاع دی جاتی ہیں کہ آج صبح 2016 ۔ 02 ۔ 14 کو جیش العدل کے مجاھدین نے ایران کے شہر سیب و سوران کے علاقے میں ایک فوجی گاڑی کو بم دھماکے سے اڑا دیا.
 جس میں سوار ایک فوجی افسر سمیت کئی ایرانی فوجی ہلاک و زخمی ھوے ۔ ایرانی حکومت نے اپنے بدنامی کو چھپانے کے لیے صرف دھماکے کو شایح کیا ھوا ہے ۔ 
الحمدللہ ھمارے مجاھدین تو ایران کے روافض حکومت کو انشاءاللہ خاک میں ملا دینگے۔
 مجاھدین جیش العدل الحمدللہ بحفاظت اپنے کیمپ میں پہنچ گئے ہیں 

شام میں ایرانی جنرل سات جنگجوؤں سمیت ہلاک






جنرل فرزانہ ایران کے سابق بریگیڈ کمانڈر تھے

شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے افسروں اور اہلکاروں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق گذشتہ جمعرات کو شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع میں لڑتے ہوئے ایک اور ایرانی جنرل بھی ہلاک ہو گیا۔
 اس کی شناخت جنرل رضا فرزانہ کے نام سے کی گئی ہے جو پاسداران انقلاب کے بریگیڈ 27 کا بریگیڈ کمانڈر بھی رہ چکا ہے۔ تاہم اس کے مقام ہلاکت کی وضاحت نہیں کی گئی۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی’’تسنیم‘‘ کے مطابق شام میں حالیہ لڑائی میں ہلاک ہونے والے جنرل ریٹائرڈ رضا فرزانہ ماضی میں آٹھ سالہ عراق۔ ایران جنگ میں بھی شریک رہے ہیں۔
 انہیں کچھ عرصہ پیشتر شام میں 40 روز پیشتر عسکری مشاورت کے لیے شام بھیجا گیا تھا۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیم سرکاری ملیشیا’’پاسیج‘‘ اور پاسداران انقلاب کے مزید سات جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔
 ان کی شناخت مجید محمدی، جادی یعقوب، ند ، تقی ارغوانی، محمد اربابی، صالح صالحی، علی محمد قربانی اور عباس کرودبانی کے ناموں سے کی گئی ہے۔
 یہ تمام عناصر شمالی حلب میں لڑائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں کے دورام شام میں 20 سینیر ایرانی فوجیوں سمیت 50 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

شام میں زخمی 1500 جنگجوؤں کا ایران میں علاج



ایرانی حکومت کی جانب سے جہاں بڑی تعداد میں رضاکار جنگجو شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع میں بھیجے گئے ہیں وہیں لڑائی میں زخمی ہونے والے اجرتی قاتلوں کو علاج کے لیے واپس تہران لایا جا تا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ عرصے کے دوران شام میں باغیوں کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہونے والے 1500 جنگجوؤں کو ایران کے بقیۃ اللہ اسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا۔ ان میں عراق، افغانستان اور پاکستانی جنگجو بھی شامل ہیں۔
فارسی نیوز ویب پورٹل’’پائیداری ملی‘‘ نے اسپتال کے ڈائریکٹر علی رضا جلالی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ شام میں زخمی ہونے کے بعد علاج کے لیے بقیۃ اللہ اسپتال لائے جانے والوں میں 425 پاسداران انقلاب کے اہلکار جب کہ باقی رضاکار ملیشیا کے 1049 جنگجو شامل ہیں۔
ادھر ایک دوسری خبرمیں بتایا گیا ہے کہ شام میں ایک ہفتے کے دوران ایرانی پاسداران انقلاب کے مزید 42 اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ 
یہ ہلاکتیں شمالی شہر حلب میں نبل اور الزھراء قصبوں پر قبضوں کے لیے ہونے والی لڑائی کے دوران ہوئیں۔

حلب میں ایرانی فوجی گاڑیاں

ایران کے فارسی ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں
 شامی اور ایرانی فوجیوں کے زیراستعمال فوجی گاڑیوں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔
 ان تصاویر میں پاسداران انقلاب کے زیراستعمال ’’کویران‘‘ نامی گاڑیاں بھی شامل ہیں جب پر راکٹ لانچر نصب کیے گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق ’’کویران‘‘ فوجی گاڑیوں پر 107 ملی میٹر دھانے والے ’’فجر1‘‘ راکٹوں کے لانچر نصب ہیں اور انہیں چھ فروری کو شمالی حلب میں لڑائی کے دوران استعمال بھی کیا گیا۔

ایران میں جنسی ہراساں ہونے والی خواتین سامنے آ رہی ہیں

ایرانی ٹی وی کی ایک نیوز اینکر کی جانب سے دفتر میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات لگائے جانے کے بعد دیگر ایرانی خواتین نے بھی اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس سے قبل ایران میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے موضوع کو اہمیت دیے جانے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔
شینا شیرانی ایران کے انگریزی زبان کے سرکاری نیوز چینل پریس ٹی وی پر خبریں پڑھتی تھیں، انھوں نے اپنے دو سینیئر مینیجروں کی جانب سے طویل عرصے سے جنسی ہراسانی کے واقعات کو منظر عام پر لا کر اس راویت کو توڑ دیا ہے۔
ان کے الزامات اس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انھوں نے فون پر ہونے والی ایک بات چیت کو آن لائن پوسٹ کر دیا جس میں ایک مرد جو ممکنہ طور پر ان کے باس حامد رضا عمادی ہیں، شیرانی سے جنسی فائدہ حاصل کرنےکی کوشش کررہے ہیں۔
شیرانی نے اس واقعے کے بعد نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور ملک سے باہر چلی گئیں اور وہاں جا کر یہ آڈیو فائل آن لائن پوسٹ کر دی، جس کو اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد لوگ سن چکے ہیں۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر عمادی کی جانب سے بھیجے جانے والے ان پیغامات کی تصویر بھی ڈال دی ہے جس میں وہ ان سے یہ آڈیو فائل ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر عمادی کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ آڈیو فائل جھوٹی ہے۔
لیکن خلاف توقع پریس ٹی وی نے اعلان کر دیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے تک اس نے اپنے دو ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ 
خیال ہے کہ ان میں سے ایک عمادی ہیں جبکہ دوسرے شخص پر بھی شیرانی کی جانب سے جنسی ہراسانی کا الزام ہے۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں پریس ٹی وی نےکہا ہے کہ ’حالانکہ اس آڈیو فائل کی صداقت کے بارے میں ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے،
 لیکن چونکہ یہ واقعہ سنگین نوعیت کا ہے اس لیے متعلقہ حکام اس کی خصوصی طور پر تفتیش کر رہے ہیں۔‘
اس کے جواب میں شیرانی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ جن سینیئر حکام کے پاس انھیں شکایت لے کر جانی تھی وہ خود اس کیس میں ملوث تھے۔
شیرانی نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران جیسے معاشروں میں اگر آپ کی طاقت ور افراد سے دوستی نہیں ہے تو آپ کمزور ہیں اور آپ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، 
اور اگر آپ عورت ہیں اور اپنے بچے کی اکیلے کفالت کر رہی ہیں تو پھر آپ کو معاشرے میں کوئی باعزت مقام نہیں مل سکتا۔‘
شیرانی نے بتایا کہ جنسی ہراسانی کے علاوہ انھیں کئی اور طریقوں سے بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے، جس میں کچھ منٹ دیر سے دفتر آنے اور سرکاری اداروں میں خواتین کے لیے مخصوص لباس کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ وہاں مجھے ایک نیوز ریڈر کے طور پر نہیں، بلکہ ایک جنسی شے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔‘
شیرانی کے اس طرح کھل کر اظہار کرنے سے ایران جیسے ملک میں بھی دفاتر میں جنسی ہراسانی کے موضوع پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر شیرانی کے اس اقدام کی حمایت کی جارہی ہے۔
شیرانی کی دیکھا دیکھی بہت سی دیگر خواتین نے بھی اپنے تجربات سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ایک خاتون نے لکھا ہے کہ ’ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں جاکر ہم تکلیف دینے والی ان گندی نظروں اور گندے الفاظ کی شکایت کر سکیں۔ بلکہ اگر شکایت کی بھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ یہ آپ ہی کی غلطی تھی کہ آپ ان مردوں کے ساتھ بے تکلف ہوئیں، بناؤ سنگھار اور خوشبو کا استعمال کرتی رہیں، اور مسکراتی رہیں۔‘
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا ہے کہ ان کی ایک ساتھی خاتون نے دفترمیں مستقل ہراساں کیےجانے کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔
کچھ لوگوں نے اس واقعے کا ذمہ دار ایرانی معاشرے کی قدامت پرست روایت کو ٹھہرایا ہے جس میں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے۔
ایک فیس بک صارف نے لکھا ہے کہ ’ایسے گھٹے ہوئے معاشرے میں جہاں مذہبی جانب داری بھی ایک مسئلہ ہو وہاں اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ ’ہمیں اپنے لڑکوں کی پرورش کرتے وقت ان کو عورت کی عزت کی اہمیت بھی بتانی چاہیے۔ ہماری خواتین سڑک پر چلتے وقت محفوظ نہیں، دفاتر تو دور کی بات ہیں۔‘

Friday 12 February 2016

ایران شام میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے: ایردوآن

ترکی کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے الزام عاید کیا ہے کہ ایرانی ملیشیا شام میں نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ 
ان کا کہنا ہے کہ شام کے بحران کے حوالے سے ترکی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ترکی شام کے تنازع سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق انقرہ میں منعقدہ اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوآن نے کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ اجرتی قاتل شامی شہریوں کو ذبح کر رہے ہیں۔
 اب یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شام میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
ترک صدر نے دسیوں ہزار شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے کے لیے عالمی مطالبات کی شدید مذمت کی اور دھمکی دی کہ وہ ترکی میں داخل ہونے والے شامی پناہ گزینوں کو دوسرے ملکوں کو بھجوائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بےوقوف لوگوں کی باتیں ہماری پیشانیوں پر لکھی ہوئی نہیں ہیں۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ طیارے اور بسیں بلا وجہ یہاں کھڑے ہیں۔
 ہمیں جس اقدام کی ضرورت محسوس ہوئی ہم وہی کچھ کریں گے۔ 
ترک صدر کا کہنا تھا کہ شامی پناہ گزینوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوا تو انہیں بسوں اور جہازوں پر لاد کر دوسرے ملکوں میں پہنچایا جائے گا۔

Thursday 11 February 2016

ایران میں پانچ کارکنوں کو سرعام پھانسی دینے کا اعلان

انسانی حقوق کے اداروں نے سزاؤں کو ظالمانہ قرار دے دیا
ایران کے جوڈیشل حکام نے ملک کے عرب اکثریتی صوبہ اہواز سے تعلق رکھنے ولے پانچ سیاسی اور سماجی کارکنوں کو بھرے مجمع میں پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
 جن کارکنوں کو تختہ دار پرلٹکانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ان کی شناخت قیس عبیداوی، حمود عبیداوی، محمد حلفی، مہدی معربی اور مہدی سیاحی کے ناموں سے کی گئی ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی’’فارس‘‘ نے صوبہ اھواز کے چیف جسٹس فرھاد افشارنیا کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ عدالتوں سے سزا پانے والے پانچ مذکورہ کارکنوں کو جلد ہی پھانسی کی سزا دی جائے گی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں بالخصوص صوبہ اھواز میں سرگرم گروپوں نے اپنے بیانات میں سزائے موت کےتازہ ایرانی فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں غیرانسانی سزائیں قرار دیا ہے۔ 
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پھانسی کے سزا یافتہ کارکنوں کو ایرانی پولیس نے اپریل 2015ء کو الحمیدیہ شہر سے حراست میں لیا تھا۔
 دوران حراست ایرانی انٹیلی جنس اداروں کے تفتیش کاروں نے تشدد کے ذریعے ان سےمن مانے اعترافات جرم کرائے اور پریس ٹی وی پرانہیں پیش کرکے ان کے خلاف انہیں خود ساختہ جرائم کا اعتراف کرایا گیا۔
اھواز میں کام کرنے والے انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ جن پانچ کارکنوں کو پھانسی کی سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے ان پر پانچ سال قبل ایک ایرانی انٹیلی جنس کو قتل کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ 
اسی جرم میں چار دوسرے شہریوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے ایک کو عمرقید اور جلا وطنی جب کہ دو کو بیس بیس سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

Wednesday 10 February 2016

ایران کا”دھوکہ“،مغربی میڈیا کے دھماکہ خیز دعوے نے سب کچھ داﺅ پر لگادیا

تہران(این این آئی)سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی تصاویر میں ایرانی دارالحکومت تہران کے نزدیک اہم ترین فوجی کمپلیکس پارچن میں نیوکلیئر ریسرچ کی مشکوک تعمیرات کا انکشاف ہوا ہے جن سے ان رپورٹوں کو تقویت ملتی ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کو منجمد کرنے کے حوالے سے دنیا بھر کو دھوکا دے رہا ہے۔انگریزی ویب سائٹ”دی ڈیلی بییسٹ“ کے مطابق سیٹلائٹ سے لی گئی نئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت نے فوجی علاقے پارچن میں مشکوک اور پراسرار عمارتیں تعمیر کیں ہیں جب کہ اس دوران وہ نیوکلیئر مذاکرات میں مصروف رہا۔ اس کا مقصد اپنی نیوکلیئر ریسرچ کے نتائج کو چھپانا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایران نے بڑی مغربی طاقتوں کے ساتھ معاہدے طے پانے کے باوجود ابھی تک خفیہ طور پر اپنے نیوکلیئر پروگرام کو کامیاب بنانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔جیوپولیٹیکل اسٹڈیز کے مرکز” سٹ ریٹ فور“کے مطابق 8 فروری 2016 کو شائع ہونے والی تصاویر، تہران سے 20 میل جنوب مشرق میں واقع فوجی مقام پارچن میں ایک پہاڑ کے اندر سرنگ کی کھدائی کو ظاہر کررہی ہیں، انتہائی سخت پہرے کے ساتھ زیرتعمیر سرنگ کے بارے میں خیال ہے کہ یہ انتہائی شدید دھماکہ خیز مواد کے تجربے کے لیے بنائی جارہی ہے۔

Tuesday 9 February 2016

بشار الاسد کا ایرانی ملاؤں کی پگڑی میں کارٹون


ہیکروں نے شامی صدر کے چاہنے والوں کو آگ لگا دی
ہیکرز وہ عجیب وغریب کردار ہیں جنہوں نے عرصہ دراز سے دنیا بھر کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ تازہ ترین کارروائی میں بعض نامعلوم ہیکرز نے اقتدار پر زبردستی براجمان شامی صدر بشار الاسد کا ایک مضحکہ خیز کارٹون پوسٹ کیا ہے۔ شامی صدر کے چاہنے والوں کے ایک مشہور ویب پیج پر پوسٹ کیے جانے والے کارٹون میں بشار الاسد کو وہ پگڑی پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے جو ایران میں ملا حضرات پہنتے ہیں... اور ساتھ ہی یہ تحریر بھی لکھی گئی ہے "ایران کی حجت شیطان بشار الاسدی"۔
یاد رہے کہ بشار حکومت کے انتہائی ہمنوا شمار کیے جانے والے ویب پیج پر مذکورہ کارٹون پوسٹ کرنے والے ہیکروں نے شامی صدر کا ایک دوسرا کارٹون بھی نشر کیا ہے... جس میں انہیں اپنی فوجی وردی کے بغیر دکھایا گیا ہے اور وہ وردی کو پیٹھ دکھا کر بھاگ رہے ہیں ... اس کارٹون کو "پھوٹ" کا عنوان دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ ویب پیج شامی اپوزیشن کے عناصر کا نشانہ بنتا رہا ہے جو کئی مرتبہ اس کو ہیک کرنے اور اس پر مکمل قبضہ جمانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ ماہ اس ویب پیج کو ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں تین مرتبہ ہیک کیا گیا۔
کارٹون میں بشار الاسد کو ایرانی ملاؤں کی پگڑی میں دکھانے کا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ شامی صدر مکمل طور پر ایران کے حکمرانوں کے آگے سر جھکا چکے ہیں۔ ساتھ ہی کارٹون میں تحریر تبصرے میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بشار الاسد اس درجے تک پہنچ گئے ہیں جہاں ان کو اسی طور "رتبہ" ملا ہے جس طرح انتہا پسند ریاست (ایران) میں بڑے ملاؤں اور مذہبی شخصیات کو ملتا ہے۔
ایران کی معروف یونی ورسٹی پروفیسر آذر نفیسی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب "میں جن چیزوں کے بارے میں خاموش تھی" میں لفظ "ملا" کی مخصوص تعریف پیش کی ہے۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ 472 پر لکھتی ہیں : "ملا ایک اسلامی خطاب ہے جو ایران میں مقامی مسلم مذہبی شخصیات یا مساجد کے سربراہوں کے لیے بولا جاتا ہے ... اس کے علاوہ یہ اس مسلم مذہبی شخصیت کی کسر شان کے طور پر بولا جانا والا خطاب بھی ہوسکتا ہے جس نے مطلوبہ (دینی) تعلیم حاصل نہیں کی یا پھر مذہبی شخصیات کے ڈھانچے میں اس کا کوئی مناسب مقام نہ ہو"۔

والدہ کے جنازے پر حملہ، بشارالاسد محفوظ رہے

روس کے ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کے صدر بشار_الاسد پر ان کی والدہ کے جنازے میں شرکت کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا ہے تاہم صدر اسد حملے میں محفوظ رہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے روسی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد کی والدہ انیسہ مخلوف کا ان کے آبائی شہر اللاذقیہ کے القرادحہ قصبے میں جنازے کا جلوس جا رہا تھا کہ اس دوران کچھ فاصلے پر راکٹ گرے جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پرآنے والے بیانات میں بتایا گیا ہے کہ صدر بشار الاسد کی والدہ کے جنازے کے جلوس کو ’احرارالشام‘ نامی عسکری گروپ نے نشانہ بنایا تاہم اس کارروائی میں صدر اسد محفوظ رہے ہیں البتہ ایک فوجی اہلکار سمیت کم سے کم چار افراد مارے گئے۔
روسی خبر رساں اداروں کے مطابق’’احرار الشام‘‘ نے انیسہ مخلوف کے جنازے کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ تنظیم نے ’’گراڈ‘‘ میزائلوں کے ذریعے بشارالاسد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
بشارالاسد کی حمایت میں سرگرم سماجی رابطے کی ویب سائیٹس کے صحفات میں بتایا گیا ہے کہ القرادحہ کے مقام پر گرنے والے راکٹوں سے چار افراد مارے گئے جن میں سے ایک کی شناخت فداء الخطیب کے نام سے کی گئی ہے۔ فداء ایک اسپتال کے قریب راکٹ گرنے سے مارا گیا۔ اسی طرح دوسرے راکٹ حملے میں رنا خیر بک نامی ایک لڑکی ہلاک ہوگئی۔ صدر کے باڈی حفاظتی عملے میں شامل ایک اہلکار اور احمد اسماعیل نامی ایک مقامی شخص کی بھی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
ذرائع کے مطابق القرادحہ میں انیسہ مخلوف کی نماز جنازہ کے جلوس کے دوران کم سے کم 5 راکٹ داغے گئے۔ بعض سوشل صفحات پران کی تعداد پانچ سے زیادہ بتائی جاتی ہے تاہم زخمیوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکا ہے۔

Monday 8 February 2016

دمشق میں شیعہ جنگجوؤں کے‘‘لبیک یا خامنہ ای’’ کے نعرے

ایرانی خبر رساں اداروں نے ایک تازہ ویڈیو نشر کی ہے جس میں شمالی شام کے جنگ زدہ علاقے حلب میں جمع ایرانی، افغان، پاکستانی اور لبنانی حزب اللہ کے جنگجوؤں کو ’’لبیک یا خامنہ ای’’ کے نعرے لگاتے سنا جا سکتا ہے۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے پرچم تلے شام میں لڑنے والے یہ جنگجو حلب کے نواحی علاقے ‘‘الزھراء’’ میں جمع ہیں اور اپنی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق فوٹیج میں شیعہ ملیشیا کے شدت پسندوں کو قصبے کو فتح کرنے کا جشن مناتے دیکھا جا سکتا ہے۔
 انہوں نے ہاتھوں میں ایرانی لیڈروں بالخصوص آیت اللہ علی خامنہ ای، ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی اور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی تصاویر بھی اٹھا رکھی ہیں اور ساتھ ہی وہ ایران زندہ باد کے نعرے بھی لگا رہے ہیں۔
 شیعہ ملیشیا کی جان سے حلب میں یہ جشن ایک ایسے وقت میں منایا گیا ہے شامی اور روسی فوج کی وحشیانہ بمباری اور شیعہ اجرتی قاتلوں کی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پچھلے ایک ہفتے میں شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع میں لڑتے ہوئے 40 ایرانی فوج اور غیرسرکاری جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
 مقتولین میں پاسداران انقلاب کے دو سینیر افسر قاسم بور اور اسماعیل شجاعی کے نام بھی شامل ہیں۔ انہیں شامی باغیوں نے حلب کے نبل اور الزھراء کے علاقے میں لڑائی میں ہلاک کیا۔

سعودی عرب : ایران کے 27 مشتبہ جاسوسوں کا ٹرائل

سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں ایک فوجداری عدالت میں ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں ستاَئیس مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔
ان مشتبہ افراد میں زیادہ سعودی شہری ہیں ۔انھیں 2013ء میں الریاض ،مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اور مشرقی صوبے سے کریک ڈاؤن کارروائیوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے محکمہ قومی سلامتی کے تحت ادارہ تفتیس وتحقیق(بیورو آف انویسٹی گیشن) اور پبلک پراسیکیوشن نے ان مشتبہ افراد کے خلاف فردِ الزامات تیار کر لی ہے۔
بیورو کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ملزموں کے خلاف ایران کے لیے جاسوسی میں ملوّث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
ان پر سعودی عرب کی متعدد اہم تنصیبات کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنا کا الزام بھی عاید کیا گیا ہے۔
یادرہے کہ سعودی وزارت داخلہ نے 19مارچ 2013ء کو ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں اٹھارہ مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کی اطلاع دی تھی۔
ان میں سولہ سعودی ،ایک لبنانی اور ایک ایرانی تھا۔ان میں سے لبنانی کو مناسب شواہد نہ ہونے کی بنا پر بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔
اس کے دوماہ بعد سعودی وزارت داخلہ نے دس مزید مشتبہ افراد کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ان میں ایک ترک ،ایک لبنانی اور آٹھ سعودی شہری تھے۔اس طرح ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد ستائیس ہوگئی تھی۔
وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق ان میں سے اکیس نے ایران کے لیے سعودی عرب کی جاسوسی کرنے کا اعتراف کر لیا ہے اور انھوں نے قانونی طور پر بھی اپنے اعترافی بیانات ریکارڈ کرادیے ہیں۔

Saturday 6 February 2016

ایرانی جیلوں میں سنی قیدیوں سے ظالمانہ سلوک کی تصدیق


شام : بریگیڈ کمانڈر سمیت ایرانی پاسدران کے مزید 24 ارکان ہلاک

شام کے شہرحلب کے شمال میں دو قصبوں پر حملے کی کارروائی میں ایرانی پاسداران_انقلاب کے 24 ارکان ہلاک ہوگئے۔ شامی حکومت نواز قصبوں "نبل" اور "الزہراء" میں آپریشن کے دوران مارے جانے والوں میں، ایرانی شہر نیشاپور میں پاسداران انقلاب کی آرمرڈ بریگیڈ 21 کے کمانڈر میجر جنرل محسن قاجاریان بھی شامل ہیں۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے زیرانتظام زمینی فوج کے سربراہ محمد پاکپور نے ایک سرکاری بیان میں قاجاریان کی موت پر تعزیت اور افسوس کا اظہار کیا۔ پاکپور کے مطابق محسن قاجاریان "شام کی سرکاری فوج کی معاونت اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ایک مشاورتی مشن کے دوران ہلاک ہوئے"۔
"فارس" نیوز ایجنسی کے مطابق ان نئی ہلاکتوں میں ایرانی شہر قم میں آرمرڈ بریگیڈ 17 سے تعلق رکھنے والے پاسداران انقلاب کے دو افسران محمد حسین سراجی اور سجاد روشنائی بھی ہیں جو لڑائی کے دوران مارے گئے۔
ان کے علاوہ 7 دیگر ارکان کو بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ان کے نام رضا عادلی، علی حسین کاهكش، علی رضا حاجی وند، فیروز حمیدی‌ زاده، محمد ابراهیم توفیقیان، مرتضی ترابی اور جواد محمدی ہیں۔
ایرانی ایجنسیوں نے بتایا ہے کہ ان افراد میں سے اکثریت کا تعلق باسیج فورس کے زیرانتظام یونٹ "فاتحين" سے ہے۔ ان کو متعدد فوجی تربیتوں کے مکمل کرنے کے بعد شام بھیجا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پاسدران انقلاب اور شیعہ افغان اور عراقی ملیشیائیں انقلابیوں کی بریگیڈز کے ساتھ سخت لڑائی کے بعد، حلب کے شمال میں واقع دو قصبوں نبل اور الزہراء میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں تھیں۔ اس دوران روسی طیاروں کے شدید حملوں کا سلسلہ جاری بھی جاری رہا۔
ایرانی ذرائع ابلاغ نے ایسی تصاویر اور وڈیو کلپس نشر کیے ہیں جن میں پاسداران انقلاب اور ملیشیاؤں کے افغان، عراقی اور پاکستانی ارکان کو نبل اور الزہراء قصبوں کے اندر دیکھا جاسکتا ہے۔
دونوں قصبوں کے اطراف جمعہ کی صبح تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس دوران انقلابیوں نے "نبل" کے احاطے میں شامی فوج کے اہل کاروں سے بھری ایک بس کو ٹینک شکن میزائل ٹاؤ کے ذریعے نشانہ بنا کر تباہ کردیا۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی منشیات کی تجارت ثاب


معروف ایرانی محقق اور مصنف مجید محمدی نے اپنے ایک مضمون میں منشیات کی تجارت میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کردار کا انکشاف کیا ہے۔ یہ مضمون فارسی زبان کی ایک اہم ویب سائٹ نے پوسٹ کیا ہے۔
ایرانی محقق نے اپنے مضمون میں کئی سوالات اٹھائے ہیں... مثلا : کیا پاسداران انقلاب کو منشیات کی تجارت کی ضرورت ہے؟ کیا پاسداران کے عقائد منشیات کی تجارت کی راہ میں حائل ہوتے ہیں؟ کیا پاسداران کے پاس اتنی لیاقت ہے جو انہیں منشیات کی تجارت کے قابل بناتی ہے؟ اور آخر میں کیا ایسے ثبوت اور شواہد موجود ہیں کہ جو اس گھناؤنی تجارت میں پاسداران کا ہاتھ ہونے کا انکشاف کرتے ہیں؟

نگرانی اور احتساب کے بغیر

انسداد منشیات کی ایرانی کمیٹی کے نائب سربراہ نے 7 جنوری 2015 کو سرکاری نیوز ایجنسی "ارنا" کو دیے گئے انٹرویو میں اس امر کی تصدیق کی تھی کہ ایران میں منشیات کی تجارت کا حجم تقریباً 3 ارب ڈالر ہے۔
ادھر محقق مجید محمدی کے مطابق، پاسداران انقلاب اور دیگر فورسز بالخصوص فیلق القدس کو ایران اور خطے میں اپنے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بڑے مالی ذرائع کی اشد ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ایسا پہلو ہے جس کی بنیاد پر ہمیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ مذکورہ عناصر کا اس تجارت میں کوئی ہاتھ نہیں... خاص طور پر یہ کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایرانی حکومت کی عسکری سرگرمیوں کا اور بشار الاسد حکومت، حزب اللہ اور حوثیوں کے لیے اس کی سپورٹ کا سلسلہ نہیں رکا۔ اس امر کے باعث پاسداران انقلاب، ایرانی پارلیمنٹ کے منظور کردہ بجٹ کے علاوہ منشیات کی تجارت جیسے اضافی مالی ذرائع تلاش کرتی ہے۔
محقق نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ملک میں اسمگلنگ کے سامان کی زیادہ تر منڈیوں پر پاسداران انقلاب اور خاص طور پر فیلق القدس کا کنٹرول ہے۔ اس کے بعد وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جو پوری طرح اس فوجی ادارے کے سامنے سرنگوں ہے، منشیات کی انتہائی منافع بخش تجارت سے چشم پوشی کرنا کیسے ممکن ہے... اس لیے پاسداران انقلاب کی طرف سے گرین سگنل کے بغیر اس کی آنکھوں کے سامنے اتنی آسانی سے اسمگلنگ کا ہونا ممکن نہیں۔
​شرعی رخصت کے ساتھ منشیات کی تجارت
محقق نے یہ بھی سوال پیش کیا ہے کہ جب لاطینی امریکا میں بائیں بازو کی طاقتیں اور افغانستان میں شدت پسند عسکری عناصر منشیات کا کاروبار کر سکتے ہیں تو پھر ان ہی فضاؤں میں رہنے والے شیعہ گروپوں کو کون سی چیز اس کام سے دور رکھ سکتی ہے ؟
وہ مزید لکھتے ہیں کہ " لاطینی امریکا میں بائیں بازو والوں کی جانب سے منشیات کی امریکا اسمگلنگ کا مقصد سامراجیت کو تباہ کرنا ہے۔ اس لیے یہ تو فطری بات ہے کہ ان کے شیعہ ساتھی بھی ایرانی سرزمین کے راستے افغانستان سے یورپ منشیات کی اسمگلنگ پر آنکھیں موند کر رکھیں۔ بالخصوص ایران میں تو اگر نظام کو برقرار رکھنے کا ناگزیر تقاضہ آجائے تو اس کی خاطر توحید اور نماز پر بھی عمل روک دینے کی اجازت ہے۔ ایسے میں مذہبی حلقوں سے منشیات کی تجارت کے جواز کا شرعی فتوی حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں۔ یہ بات تو ویسے بھی معروف ہے کہ مذہبی حلقے افیون کو اور اسی طرح نشہ آور صنعتی لوازمات کو حرام نہیں قرار دیتے۔

پاسداران انقلاب کے اختیارات

مضمون میں ان اختیارات اور اہلیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو پاسداران
 انقلاب کے لیے منشیات کی تجارت اور کسی بھی دوسرے سامان کی اسمگلنگ کو آسان بناتے ہیں۔ اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بندرگاہیں اور سمندری گزرگاہیں غیر سرکاری طور پر پاسداران کے قبضے میں ہیں اور یہ کسی بھی سرکاری ادارے کے زیرنگرانی نہیں، اس کے علاوہ ایرانی ہوائی اڈوں کی سیکورٹی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کو ان مقامات پر کسی بھی کام کی کھلی آزادی حاصل ہے۔ پاسداران انقلاب کی ملک کے تمام علاقوں، جامعات، اسکولوں، مساجد، امام بارگاہوں اور سرکاری دفاتر میں مخلتف شاخیں ہیں۔ اسی طرح وہ ایران میں پہاڑی علاقوں، جنگلوں، چٹیل میدانوں اور صحراؤں پر بھی مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔
ثبوت کیا ہیں ؟
مجید محمدی کے مطابق منشیات کی تجارت میں پاسداران انقلاب کے ملوث ہونے کے متعدد ثبوت اور شواہد ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایرانی اعلیٰ اہل کاروں اور پاسداران انقلاب سے علاحدہ ہو جانے والے ارکان کے بیانات کو بنیاد بنایا ہے۔
ایران کے ایک سابق اٹارنی جنرل "دری نجف آبادی" نے 2 اگست 2008 کو فارسی زبان کے اخبار "رسالت" کو دیے گئے انٹرویو میں اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ " اگر مغربی ممالک نے ایٹمی توانائی کے شعبے میں ایران کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو ایران اپنی سرزمین کے ذریعے نہیں بلکہ سمندر اور دیگر پوائنٹس کے ذریعے نشہ آور لوازمات (منشیات) کے گزرنے کی اجازت دے سکتا ہے... اس لیے کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کو روکیں اور لاشوں کا نذرانہ پیش کریں جب کہ افغانستان ہزاروں ہیکٹر زمین پر افیون کی خشخاش کاشت کر رہا ہے"۔
اس بیان سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت نے اپنی سرزمین کے راستے منشیات کی یورپ اسمگلنگ کی اجازت دی چوں کہ مغربی ممالک نے ایرانی ایٹمی پروگرام کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بی بی سی (فارسی سروس) نے 7 مارچ 2012 کو اپنی ایک خبر میں بتایا تھا کہ امریکی وزارت خزانہ نے پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم فیلق القدس کے ایک بڑے کمانڈر جنرل غلام رضا باغبانی کا نام منشیات کی اسمگلنگ میں شریک ہونے کے الزام میں زیرپابندی شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا۔
17 نومبر 2011 کو پاسداران انقلاب سے علاحدہ ہو جانے والے ایک افسر "سجاد حق پناہ" نے ٹائمز اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ منشیات کی تجارت اور اسمگلنگ ایران میں پاسداران انقلاب کی قیادت کے درمیان پھیل چکی ہیں، اور ان میں بعض کمانڈر تو براہ راست ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
افیون کی ہیروئن میں تبدیلی
سجاد حق پناہ کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب افغانستان سے اسمگل شدہ افیون لے کر اسے ایران میں ہیروئن اور مارفین میں تبدیل کرتی ہے۔ اس کے بعد جرائم پیشہ گینگز کی معاونت سے اسے دنیا کے مختلف حصوں میں اسمگل کرا دیتی ہے۔
حق پناہ نے جو علاحدگی سے قبل پاسداران انقلاب میں انفارمیشن سیکورٹی کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے تھے، بتایا کہ "پاسداران انقلاب (منشیات کی اسمگلنگ کے لیے) لوجسٹک آپریشنز کے لیے (اپنی خصوصی) آمدورفت کی سمندری اور فضائی کمپنیوں سے استفادہ کرتی ہے، اس طرح اسے لا محدود اختیارات حاصل ہیں"۔
منشیات کی اسمگلنگ میں پاسداران انقلاب کے بڑھتے ہوئے کردار نے ایرانی جنرل انسپیکشن آرگنائزیشن کے سربراہ مصطفی بور محمدی کو بھی احتجاج پر مجبور کر دیا۔ محمدی نے جنوری 2013 میں روزنامہ "تجارت فردا" کو دیے گئے انٹرویو میں اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ " اس میں کوئی شک نہیں کہ منشیات کی اسمگلنگ کسی بھی شکل میں ہو وہ انسانیت کے ساتھ غداری ہے۔ اور اس میں کوئی فائدہ اور بھلائی نہیں ہے کہ ایک ادارہ (پاسداران انقلاب) ایسا کام کرے۔ جو کوئی بھی ایسا کر رہا ہے اور اس کے بارے میں سوچ رہا ہے تو بلا شک و شبہ وہ ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ہم اس میں کسی قسم کی بھی بھلائی، برکت اور منفعت خیال نہیں کریں گے"