ایران کے صدر حسن روحانی کو حال ہی میں کُرد سنی اکثریتی صوبہ کردستان کے دورے کے دوران ایک غیر متوقع سوال کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے بلکہ الٹا سوال کرنے والے کو ڈانٹ پلادی۔
ایک مقامی صحافی نے ان سے پوچھا کہ "آخر کیا وجہ ہے کہ ایران میں یہودی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں مگر کوئی سنی مسلمان وزیر یا کسی صوبے کا گورنر کیوں نہیں بن سکتا؟"
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق صدر حسن روحانی صحافی کے اس غیر متوقع سوال پر کچھ پریشان ہوئے لیکن انہوں نے فورا صحافی کو یہ کہہ کر جھڑک دیا کہ "میری حکومت شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں کرتی"۔
خیا ل رہے کہ ایران میں اہل سُنت والجماعت مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد 20 سے 25 فی صد کے درمیان ہے۔
سنی آبادی کی اکثریت کردستان، پاکستان سے متصل صوبہ سیستان بلوچستان اور ساحلی چولستان میں آباد ہے جب کہ اقلیت کی شکل میں مغربی صوبہ آھواز اور خراسان میں بھی موجود ہے۔
ایرانی صدر نے کُرد صحافی کے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا کہ "ایران میں کوئی سنی وزیر یا گورنر کیوں نہیں بن سکتا؟۔
تاہم انہوں نے سوال کرنے والے کو ڈانٹ ضرور پلائی اور کہا کہ ان کی حکومت میں شیعہ مسلمانوں کو سنی مسلمانوں پر کسی قسم کی ترجیح حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ "آپ کی بات حیران کن اور باعث تعجب ہے۔
آپ کا سوال ایسا کہ اس کا کوئی جواب نہیں کیونکہ ہم یہاں تفرقہ بازی پر بحث کے لیے نہیں آئے ہیں۔
عموماً حسن روحانی کو ایران کے اعتدال پسند، کم گو اور غیر جذباتی صدور میں
شمار کیا جاتا ہے مگر وہ کرد صحافی کے سوال پر سخت جذباتی دکھائی دیے۔
تاہم ایک ایرانی تجزیہ نگار جلال جلالی زادہ کا کہنا ہے کہ ایرانی وزارت خارجہ
میں ایک سنی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں اور نہ ہی کوئی سنی سفیر موجود ہے۔ پچھلے چھتیس سال میں ایران میں کسی سنی مسلمان کو وزارت کا قلم دان نہیں سونپا گیا۔