Tuesday 24 April 2018

ایران سے جوہری سمجھوتا پاگل پن تھا، یہ ہونا ہی نہیں چاہیے تھا: صدر ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کیا تو اس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے فرانسیسی ہم منصب عمانوایل ماکروں آج وائٹ ہاؤس میں ملاقات میں ایران سے جوہری سمجھوتے اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں۔
ماکروں یہ چاہتے ہیں کہ ٹرمپ ایران سے جوہری سمجھوتے کو برقرار رکھیں جبکہ انھوں نے ابھی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوف ناک ڈیل تھی۔
امریکی صدر نے اگرچہ اپنے فرانسیسی ہم منصب کا وائٹ ہاؤس میں بڑے والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ایران سے جوہری سمجھوتے کے علاوہ پیرس میں طے شدہ کثیر قومی موسمیاتی سمجھوتے کے بارے میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ماکروں کے ساتھ نیوز کانفرنس کے دوران میں ایک رپورٹر کے سوال کا جواب دینے سے بھی انکار کردیا ۔
اس نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا کہ وہ اپنے ذاتی وکیل مائیکل کوہن کو معافی دینے پر غور کررہے ہیں ۔صدر ٹرمپ نے اس سوال کو احمقانہ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوری 2017ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ایران سے 2015ء میں طے شدہ جوہری معاہدے کی تنسیخ کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔وہ پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر یورپی ممالک ا س کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر وہ اس میں موجود اسقام دور کریں اور اس مقصد کے لیے ایران کے ساتھ ایک ضمنی سمجھوتا طے کریں جس کے تحت اس کے لیے جوہری بم کی تیاری کا حساس کام بالکل ناممکن ہوجائے اور موجودہ معاہدے میں ان تصریحات میں ترمیم کی جائے یا انھیں حذف کیا جائے جن کے تحت وہ بتدریج ایڈوانس جوہری کام بحال کر سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ ایران کے خلاف بیلسٹک میزائل پروگرام کی وجہ سے بھی مزید سخت پابندیاں عاید کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ایران جوہری معاہدے پر ازسر نو کسی قسم کی بات چیت سے انکار کرچکا ہے۔

Tuesday 17 April 2018

یہ ایرانی روافضیوں کے گاڑی ۔ چوکی اور ہلاک و زخمیوں کے چند تصویریں













جیش العدل کے مجاھدین نے ایران کے ایک فوجی گاڑی تباہ کیا اور ایک فوجی کیمپ کو فتح کیا

الحمدللہ جیش العدل کے مجاھدین نے 16۔۔ 04۔۔ 2018  کی رات کو ایران کےشہرزاھدان کے علاقے میرجاوا کے مقام وشا آب میں  ایک فوجی کیمپ پر حملے کئے جس میں موجود کئی فوجی بھاگ گئے اور ان میں سے سات فوجی مردار ہوئے اور ایک فوجی اوپر والے منزل چوکی پر گئے تھے اور مزاحمت کررہے تھے کہ جیش العدل کے فدائیوں نے کیمپ کے اندر والے چوکی کے اندر بارود بچھا کر دھماکے سے اڑادیا جس سے چوکی اور فوجی تباہ ھوے 
اسی جھڑپ کے دوران دوسرے کیمپوں سے مدد کے لیے کئی گاڑیاں ایرانی فوجیوں سے بھرے ھوے جب قریب ھوئے تو جیش العدل کے فدائیوں نے ایک فوجی گاڑی کو بم دھماکے سے اڑا دیا جس میں سوار سب ایرانی فوجی ہلاک ہوئے 
اس لڑائی کے دوران جیش العدل کے ایک مجاھد معمولی زخمی ھوئے
 شکر الحمد للہ جیش العدل کے مجاھدین بحفاظت اپنے کیمپ میں پہنچ گئے ۔
جیش العدل کے مجاھدین ایرانی روافض افواج و خامناہ ای اور اسکے مزدوروں کو خبردار کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ جب تک بے گناہ اہلسنت کے پکڑ دھکڑ اور پانسی کو نہ روکھا گیا تو جیش العدل کے جان فدا مجاھدین ایسے حملے کرتے رہیں گے اور ایران کو رافضیوں کے قبرستان بنادیںگے ۔   انشاء اللہ

Monday 16 April 2018

ایرانی بلوچستان میں ایرانی روافض فورسز کی فائرنگ چار اہلسنت کے بلوچ شہید ہوگئے

 ایرانی  بلوچستان میں ایرانی روافض فورسز کی فائرنگ چار اہلسنت کے بلوچ شہید ہوگئے تازہ ترین اطلاع کے مطابق  ایرانی بلوچستان میں ایرانی روافض فورسز کی فائرنگ سے تین سالہ بچی سمیت چاراہلسنت کے بلوچ شہید ہوگئے جن میں ایک 18  سالہ حمزہ بامری ولد نادر
اور اسکے بھائ مسلم بامری، یعقوب شاہنواز اور ایک چھوٹی بچی حسنہ بلوچ بھی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ مزید معلومات کے مطابق چاروں افراد ایک کار میں اپنے کسی رشتہ دار کے گھر جا رہے تھے جو کہ دلگان چیک پوسٹ پر ایرانی روافض سکیورٹی فورسز نے ان پر بلا وجہ فائیرنگ کرکے انہیں شہید کر دیا دریں اثنا شہدا کی لاشوں کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا اور ضروری کاروائی  کے بعد ھسپتال کے عملے نے  مقتولین کی لاشیں ورثہ کے حوالے کر دیئے ـ

Saturday 14 April 2018

مجاھدین جیش العدل














سعودی عرب نے شام میں کیمیائی تنصیبات پر فضائی حملوں کی حمایت کردی

سعودی عرب نے امریکا کی قیادت میں سہ ملکی اتحاد کے شام میں کیمیائی تنصیبات پر فضائی حملوں کی حمایت کردی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم شام میں فوجی اہداف کے خلاف کارروائیوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں‘‘۔
وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعے نے کہا ہے کہ امریکا کی قیادت میں اتحاد کی فوجی کارروائیاں شامی رجیم کی جانب سے مسلسل ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے بے گناہ شہریوں کے خلاف استعمال کے ردعمل میں کی جارہی ہیں ۔
شامی عوام کے خلاف گذشتہ کئی برسوں سے ان سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جارہا تھا۔
اس سعودی ذریعے نے شامی رجیم کو ان ملٹری آپریشنز کا ذمے دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عالمی برادری بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہی تھی۔
دریں اثناء بحرین نے بھی شام میں فوجی تنصیبات کے خلاف اہدافی حملوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے یہ حملے شامی شہریوں کے تحفظ اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے لیے ناگزیر ہوچکے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کی شب امریکا ، برطانیہ اور فرانس کے شام میں مشترکہ آپریشن کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں بشار الاسد کے’’ مجرم رجیم‘‘ کو ہدف بنایا جارہا ہے اور مبیّنہ کیمیائی حملے سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

شام: القصیر میں حزب اللہ کے اڈے پر مغربی طاقتوں کا حملہ

امریکا نے ہفتہ کی صبح برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔ اس دوران شام کے علاقے القُصیر میں لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے ایک مرکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
 یہ بات انسداد دہشت گردی کے شعبے کے امریکی محقق چارلس لیسٹر نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتائی۔
لیسٹر نے اپنی ٹوئیٹ میں بتایا کہ حملے میں القصیر میں حزب اللہ کے ایک مرکزی عسکری اڈے کو نشانہ بنایا گیا جو شام لبنان سرحد کے انتہائی نزدیک واقع ہے۔ لیسٹر کے مطابق یہ ایک اہم پیش رفت ہونے کے علاوہ غالبا حزب اللہ ملیشیا پر پہلی امریکی ضرب اور ایران کے لیے ایک بھرپور پیغام ہے۔
یاد رہے کہ حزب اللہ ملیشیا نے لبنان کی سرحد کے ساتھ واقع شام کے علاقے القصیر میں شامی اپوزیشن کے خلاف لڑائی کی ذمے داری سنبھال کر علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

Friday 13 April 2018

امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر حملہ کر دیا

امریکا نے فرانس اور برطانیہ کے ساتھ مل کر شام پر حملوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ شامی حکام نے بھی حملوں کی تصدیق کردی ہے۔
شام کی سرکاری خبرایجنسی کا کہنا ہے کہ شامی فضائیہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے حملے کا جواب دے رہی ہے۔ 
عینی شاہدین کے مطابق دمشق میں یکے بعد دیگر ے کئی دھماکے سنے گئے اور دھواں اٹھتے بھی دیکھا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہناہے کہ شام میں امریکی فوجی ایکشن جاری ہے، شام میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حملہ برطانیہ اورفرانس کےساتھ مل کر کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ شام کا کیمیائی حملہ کرنا اس کی بنیاد بنا،شام پر حملوں کا تسلسل برقرار رہے گا۔ صدر ٹرمپ نے ایران اور روس کو شام سے تعلقات پر انتباہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمیائی حملوں پرشامی حکومت اور اس کے روسی اورایرانی اتحادیوں کا احتساب کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بشارا الاسد کے مستقبل کا فیصلہ شام کے عوام کے ہاتھوں میں ہے۔
ادھر برطانوی وزیراعظم نے بھی اپنی فوج کو شام میں حملے کی اجازت دے دی ہے۔ تھریسا مے کا کہنا ہے کہ شام پر حملوں کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ حملوں کا مقصد شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حملوں کا مقصد شام میں حکومت کی تبدیلی ہے۔
دوسری جانب جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل کا کہنا ہے کہ جرمنی شامی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا تاہم اس کی حمایت کرے گا۔
 انھوں نے کہا 'میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ابھی تک شام پر فوجی کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے لیکن اگر فیصلہ ہو جاتا ہے تو جرمنی اس کا حصہ نہیں ہو گا۔'
اس سے پہلے وہائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکا کے پاس ثبوت ہیں کہ شام نے دوما میں کیمیائی حملہ کیا تھا۔ امریکی سفیرکا کہنا تھا کہ شام کی فوج نے کم از کم 50 بار کیمیائی ہتھیار استعمال کئے تھے۔ فرانس نے شام کے خلاف بھر پور عالمی رد عمل کا مطالبہ کیا تھا۔
شام نے کہا ہے کہ امریکا اور یورپ دنیا کو جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سر براہ حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیلی حملہ دراصل ایران کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے مترادف ہے۔

Wednesday 11 April 2018

سعودی ولی عہد کا دنیا کے لیے پیغام

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دنیا کو یہ مضبوط پیغام دیا ہے کہ سعودی عرب دہشت گردی کے استیصال کی صلاحیت کا حامل ہے ۔
یہ پیغا م عالمی برادری کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے ایک نئی زبان پر مبنی ہے۔
انھوں نے وال اسٹریٹ جرنل سے انٹرویو میں ایک اور پیغام بھی دیا تھا اور وہ یہ کہ عالمی برادری کو ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ برقرار رکھنا چاہیے تاکہ خطے میں براہ راست فوجی محاذ آرائی سے بچا جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ ’’پابندیوں سے ایران پر دباؤ میں اضافہ ہوگا‘‘۔
انھوں نے کہا:’’ہمیں کامیاب ہونا ہوگا تاکہ ہم فوجی تنازع سے بچ سکیں۔اگر ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے ، جس کی ہم کوشش کررہے ہیں تو پھر ایران کے ساتھ دس سے پندرہ سال میں جنگ چھڑ سکتی ہے‘‘۔
ہم یہاں سعودی ولی عہد کے روپ میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہے ہیں جو مبہم اصطلاحوں میں گفتگو نہیں کرتا۔
وہ ایسے بیانات بھی جاری نہیں کرتا جن پر وہ کوئی عملی کارروائی کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔شہزادہ محمد بن سلمان نے خبردار کیا ہے کہ عالمی برادری کی یہ اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ ایرانی دہشت گردی کے خلاف ایک یکساں مؤقف اختیار کرے۔
اس دہشت گردی کا ہدف خلیج یا عرب ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ہے تاکہ ایک حقیقی جنگ سے بچا جاسکے کیونکہ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ یہ جنگ ایران اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست ہوگی لیکن درحقیقت یہ ایک ایسے خطے میں برپا ہوگی جس سے پوری دنیا کا متاثر ہونا ناگزیر ہوگا۔
اللہ ہمیں اس جنگ سے بچائے لیکن اگر یہ چھڑ جاتی ہے تو یہ صرف دو ملکوں کے درمیان ہی نہیں ہوگی اور نہ اس سے صرف یہ دونوں متاثر ہوں گے بلکہ اس سے پوری دنیا کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کا انحصار خلیج ،عرب ممالک اور ایران کے تیل پر ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک مشرقِ وسطیٰ کے خطے کے سمندری اور فضائی راستوں کو تیل اور تجارتی سامان کی حمل ونقل کے لیے استعمال کرتے ہیں مگرخطے سے گزرنے والے راستوں کا کنٹرول ان دونوں ممالک کے پاس ہی ہے ۔
ایران نے پہلے ہی خلیج اور عرب ممالک کے خلاف گذشتہ تیس سال سے زیادہ عرصے سے ایک گماشتہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور وہ ایسا عراق ، لبنان ، شام ،یمن ، بحرین اور کویت میں شیعہ ملیشیاؤں کی اسلحی اور مالی مدد کے ذریعے کررہا ہے۔
وہ انھیں درمیانے اور بھاری ہتھیار اسمگل کررہا ہے۔ ان ملیشیاؤں نے ایران کے ایماء پر اپنے ہی ملکوں کے عوام کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے۔ ہم عشروں سے ان ملیشیاؤں کا سامنا کررہے ہیں اور انھیں اپنے وسائل اور صلاحیتوں پر قبضے اور کنٹرول سے روکنے کے لیے جانیں قربان کررہے ہیں ۔
سعودی ولی عہد نے عالمی برادری کے لیے ایک انتباہ جاری کیا ہے کہ ہم توسیع پسندانہ عزائم کے حامل اور بالادستی کے خواہاں ایک ملک کے ساتھ درحقیقت حالتِ جنگ میں ہیں اور اس نے بین الاقوامی سلامتی کو بھی خطرے سے دوچار کردیا ہے۔اس وقت صرف ہم اس کے مد مقابل ہیں اور باقی دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
اگر عالمی برادری ایران کے ساتھ تجارتی سودوں کو منقطع نہیں کرتی ہے تو اس ملک کو اس کے مذموم عزائم سے کبھی نہیں روکا جاسکے گا۔ایران ان سودوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔
ایران پر پابندیاں
سعودی ولی عہد نے کہا کہ اگر دہشت گردی ایک جزیرہ ہے تو وہ اس کو الگ تھلگ کرکے رہیں گے۔یہ گماشتہ جنگ بھی ہمیشہ کے لیے جاری رہ سکتی ہے اور نہ سعودی عرب اور اس کے برادر ملک بحرین اور متحدہ عرب امارات ہمیشہ کے لیے عالمی برادری کے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں ۔
انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس گماشتہ جنگ کو بند کرائے ،قبل اس سے کہ یہ ایک براہ ِراست جنگ بن جائے لیکن تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی۔
آج ایران پر دباؤ بڑھانا ناگزیر ہے ۔اس کی دہشت گردی کو روکیے اور مستقبل کی جنگ سے دور رہیے۔ایرانی رجیم پر اگر دوبارہ بین الاقوامی پابندیاں عاید کی جاتی ہیں تو وہ ان کا بوجھ سہار نہیں سکے گا ۔
 پھر اب ایرانی عوام بھی اس کو توسیع پسندانہ عزائم کا حامل قرار دے کر قابل احتساب گردان رہے ہیں کیونکہ اس توسیع پسندانہ پالیسی کو عوام کی فلاح وبہبود کی قیمت پر ہی آگے بڑھایا جارہا ہے۔
ایرانی عوام اب اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ،ان کی بغاوت کو مہمیز مل رہی ہے اور وہ خاموش رہنے سے انکار کرچکے ہیں۔
یورپی یا ایشیائی ممالک اگر ایران کے بائیکاٹ اور اس پر پابندیوں کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کا جو نقصان ہوسکتا ہے وہ اس سے کہیں کم ہوگا جو خطے میں جنگ چھڑ جانے کی صورت میں انھیں پہنچ سکتا ہے۔
سعودی عرب صرف اپنے مفادات ہی کے لیے علاقائی پانیوں کا تحفظ نہیں کررہا ہے اور صرف اس ایک مقصد ہی کے لیے جنگ آزما نہیں ہے بلکہ وہ بین الاقوامی آبی راستوں کی سلامتی و تحفظ کے لیے ایسا کررہا ہے اور ان بحری گذرگاہوں کو تمام ممالک استعمال کرتے ہیں۔
 ہر کوئی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ایران ان کے ذریعے تنازعات والے علاقوں میں کیسے ہتھیار برآمد کررہا ہے۔ سمندری راستوں میں گشت کرنے والی یورپی اور دوسری غیرملکی ٹیموں نے متعدد مرتبہ ایران کے دوسرے ممالک میں ملیشیاؤں کے لیے بھیجے گئے ہتھیاروں کو پکڑا اور ضبط کیا ہے۔
مگر ایسے واقعات نے بھی یورپی ممالک کو پختہ مؤقف اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے محض خالی خولی بیانات جاری کرنے پر ہی ا کتفا کیا ہے اور اب تک کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے۔