سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دنیا کو یہ مضبوط پیغام دیا ہے کہ سعودی عرب دہشت گردی کے استیصال کی صلاحیت کا حامل ہے ۔
یہ پیغا م عالمی برادری کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے ایک نئی زبان پر مبنی ہے۔
انھوں نے وال اسٹریٹ جرنل سے انٹرویو میں ایک اور پیغام بھی دیا تھا اور وہ یہ کہ عالمی برادری کو ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ برقرار رکھنا چاہیے تاکہ خطے میں براہ راست فوجی محاذ آرائی سے بچا جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ ’’پابندیوں سے ایران پر دباؤ میں اضافہ ہوگا‘‘۔
انھوں نے کہا:’’ہمیں کامیاب ہونا ہوگا تاکہ ہم فوجی تنازع سے بچ سکیں۔اگر ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے ، جس کی ہم کوشش کررہے ہیں تو پھر ایران کے ساتھ دس سے پندرہ سال میں جنگ چھڑ سکتی ہے‘‘۔
ہم یہاں سعودی ولی عہد کے روپ میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہے ہیں جو مبہم اصطلاحوں میں گفتگو نہیں کرتا۔
وہ ایسے بیانات بھی جاری نہیں کرتا جن پر وہ کوئی عملی کارروائی کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔شہزادہ محمد بن سلمان نے خبردار کیا ہے کہ عالمی برادری کی یہ اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ ایرانی دہشت گردی کے خلاف ایک یکساں مؤقف اختیار کرے۔
اس دہشت گردی کا ہدف خلیج یا عرب ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ہے تاکہ ایک حقیقی جنگ سے بچا جاسکے کیونکہ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ یہ جنگ ایران اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست ہوگی لیکن درحقیقت یہ ایک ایسے خطے میں برپا ہوگی جس سے پوری دنیا کا متاثر ہونا ناگزیر ہوگا۔
اللہ ہمیں اس جنگ سے بچائے لیکن اگر یہ چھڑ جاتی ہے تو یہ صرف دو ملکوں کے درمیان ہی نہیں ہوگی اور نہ اس سے صرف یہ دونوں متاثر ہوں گے بلکہ اس سے پوری دنیا کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کا انحصار خلیج ،عرب ممالک اور ایران کے تیل پر ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک مشرقِ وسطیٰ کے خطے کے سمندری اور فضائی راستوں کو تیل اور تجارتی سامان کی حمل ونقل کے لیے استعمال کرتے ہیں مگرخطے سے گزرنے والے راستوں کا کنٹرول ان دونوں ممالک کے پاس ہی ہے ۔
ایران نے پہلے ہی خلیج اور عرب ممالک کے خلاف گذشتہ تیس سال سے زیادہ عرصے سے ایک گماشتہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور وہ ایسا عراق ، لبنان ، شام ،یمن ، بحرین اور کویت میں شیعہ ملیشیاؤں کی اسلحی اور مالی مدد کے ذریعے کررہا ہے۔
وہ انھیں درمیانے اور بھاری ہتھیار اسمگل کررہا ہے۔ ان ملیشیاؤں نے ایران کے ایماء پر اپنے ہی ملکوں کے عوام کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے۔ ہم عشروں سے ان ملیشیاؤں کا سامنا کررہے ہیں اور انھیں اپنے وسائل اور صلاحیتوں پر قبضے اور کنٹرول سے روکنے کے لیے جانیں قربان کررہے ہیں ۔
سعودی ولی عہد نے عالمی برادری کے لیے ایک انتباہ جاری کیا ہے کہ ہم توسیع پسندانہ عزائم کے حامل اور بالادستی کے خواہاں ایک ملک کے ساتھ درحقیقت حالتِ جنگ میں ہیں اور اس نے بین الاقوامی سلامتی کو بھی خطرے سے دوچار کردیا ہے۔اس وقت صرف ہم اس کے مد مقابل ہیں اور باقی دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
اگر عالمی برادری ایران کے ساتھ تجارتی سودوں کو منقطع نہیں کرتی ہے تو اس ملک کو اس کے مذموم عزائم سے کبھی نہیں روکا جاسکے گا۔ایران ان سودوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔
ایران پر پابندیاں
سعودی ولی عہد نے کہا کہ اگر دہشت گردی ایک جزیرہ ہے تو وہ اس کو الگ تھلگ کرکے رہیں گے۔یہ گماشتہ جنگ بھی ہمیشہ کے لیے جاری رہ سکتی ہے اور نہ سعودی عرب اور اس کے برادر ملک بحرین اور متحدہ عرب امارات ہمیشہ کے لیے عالمی برادری کے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں ۔
انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس گماشتہ جنگ کو بند کرائے ،قبل اس سے کہ یہ ایک براہ ِراست جنگ بن جائے لیکن تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی۔
آج ایران پر دباؤ بڑھانا ناگزیر ہے ۔اس کی دہشت گردی کو روکیے اور مستقبل کی جنگ سے دور رہیے۔ایرانی رجیم پر اگر دوبارہ بین الاقوامی پابندیاں عاید کی جاتی ہیں تو وہ ان کا بوجھ سہار نہیں سکے گا ۔
پھر اب ایرانی عوام بھی اس کو توسیع پسندانہ عزائم کا حامل قرار دے کر قابل احتساب گردان رہے ہیں کیونکہ اس توسیع پسندانہ پالیسی کو عوام کی فلاح وبہبود کی قیمت پر ہی آگے بڑھایا جارہا ہے۔
ایرانی عوام اب اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ،ان کی بغاوت کو مہمیز مل رہی ہے اور وہ خاموش رہنے سے انکار کرچکے ہیں۔
یورپی یا ایشیائی ممالک اگر ایران کے بائیکاٹ اور اس پر پابندیوں کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کا جو نقصان ہوسکتا ہے وہ اس سے کہیں کم ہوگا جو خطے میں جنگ چھڑ جانے کی صورت میں انھیں پہنچ سکتا ہے۔
سعودی عرب صرف اپنے مفادات ہی کے لیے علاقائی پانیوں کا تحفظ نہیں کررہا ہے اور صرف اس ایک مقصد ہی کے لیے جنگ آزما نہیں ہے بلکہ وہ بین الاقوامی آبی راستوں کی سلامتی و تحفظ کے لیے ایسا کررہا ہے اور ان بحری گذرگاہوں کو تمام ممالک استعمال کرتے ہیں۔
ہر کوئی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ایران ان کے ذریعے تنازعات والے علاقوں میں کیسے ہتھیار برآمد کررہا ہے۔ سمندری راستوں میں گشت کرنے والی یورپی اور دوسری غیرملکی ٹیموں نے متعدد مرتبہ ایران کے دوسرے ممالک میں ملیشیاؤں کے لیے بھیجے گئے ہتھیاروں کو پکڑا اور ضبط کیا ہے۔
مگر ایسے واقعات نے بھی یورپی ممالک کو پختہ مؤقف اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے محض خالی خولی بیانات جاری کرنے پر ہی ا کتفا کیا ہے اور اب تک کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے۔