ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ ایران میں نظام کی تبدیلی کے ایک نئے پروگرام پرغور کررہی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ اور امریکا کی قومی سلامتی نے ایران میں نظام کی تبدیلی کے لیے ایک نئی اسکیم تیار کی ہے۔
اس اسکیم کے تحت ایران میں پرامن جمہوری تبدیلی کے لیے کوشاں مختلف اقوام اور قوتوں کی مدد کرنا، ایران میں عوامی انتفاضہ کو سپورٹ کرنا اور عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔
’فری بیکن‘ امریکی نیوز ویب سائیٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے امریکی انتظامیہ کے ایران میں تبدیلی کے حوالے سے پلان کی نقل حاصل کی ہے۔
تین صحفحات پر مشتمل اس پلان کے بارے میں وائیٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کمیٹی میں بحث بھی جاری ہے۔
اس اسکیم میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ایران میں تبدیلی کے ممکنہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ امریکا ایرانی قوم کو کس طرح ملائیت کی متشدد حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتا ہے۔
امریکا کی طرف سے یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے پائے تاریخی جوہری معاہدے سے علاحدگی کا اعلان کرتے ہوئے تہران پر عاید کردہ سابقہ پابندیاں بحال کردی تھیں۔
ایران پر اقتصادی پابندیوں کی بحالی بھی ملک پر مسلط مذہبی عناصر کی حکومت کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
ایران میں نظام کی تبدیلی کا منصوبہ سیکیورٹی اسٹڈی سینٹر گروپ ’SSG‘ کی طرف سے تیار کیا گیا ہے۔
یہ گروپ امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے زیرانتظام ایک تھینک ٹینک کے طورپر کام کرتا ہے اور اس کے وائیٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے سینیرعہدیداروں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔
ان میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن بھی شامل ہیں جو ایران کے حوالے سے طویل المیعاد امریکی پالیسی تشکیل دینے پر زور دے رہےہیں۔ سنہ2009ء میں جب ایران میں حکومت کے خلاف عوام سڑکوں پرآئے تو اس وقت بھی ایران میں نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا مگر اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی امریکی حکومت کی بنیادی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ جون بولٹن جیسے لوگوں کی وائیٹ ہاؤس میں آمدکے بعد ایران کے خلاف امریکی پالیسی اور تہران میں نظام کی تبدیلی کا موقف مزید سخت ہوگیا ہے۔
’فری بیکن‘ کی رپورٹ کے مطابق اگرامریکا ایران میں عوام کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی کوشش کرتا ہے تو ایسی صورت میں تہران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان کم ہوجائے گا۔
’ایسی ایس جی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی عوام ابتر معاشی حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ حکومت وسائل کا ایک بڑا حصہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور بیرون ملک عسکری منصوبوں پر خرچ کررہی ہے۔
’فری بیکن’ گروپ کے چیئرمین گیم ھانسن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران میں براہ راست فوجی کارروائی کی خواہاں نہیں مگر واشنگٹن کی توجہ ایران میں سخت گیر نظام کو تبدیل کرنے کے لیے پرامن مساعی پر مرکوز ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ایران میں تبدیلی ٹینکوں، جنگی طیاروں اور بمباری سے لائی جائے۔ یہ کام وہاں کی عوام اور استحصال زدہ طبقے کی مدد کرکے بھی کیا جاسکتا ہے