Thursday 24 November 2016

کاروان ء جیش العدل



ٹرمپ انتظامیہ کے ذمے داران اور ایرانی کرنسی میں غیر مسبوق گراوٹ

جمعرات کے روز ایرانی ریال کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور ڈالر، تہران اور چھ بڑے ممالک کے درمیان نیوکلیئر معاہدے کے بعد ایرانی بینکوں میں ریکارڈ سطح پر آ گیا۔
کرنسی ماہرین کے نزدیک امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ چند روز کے دوران جن ذمے داران کو اپنی آئندہ حکومت میں شریک کرنے کے واسطے چنا ہے ، نیوکلیئر معاہدے اور تہران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان ذمے داروں کے بیانات ایرانی ریال کے مقابل امریکی ڈالر کی بلندی کا بنیادی سبب ہے۔
تہران میں جمعرات کے روز بلیک مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 37470 ایرانی ریال تک پہنچ گئی۔ ایرانی چیمبر آف کامرس کے چیئرمین محسن جلالپور نے توقع ظاہر کی ہے کہ " ملک میں قیمتوں کا ، نیوکلیئر سرگرمیوں کے سبب بین عالمی طاقتوں کی جانب سے تہران پر عائد حصار سے پہلے کی سطح پر آنا ایک فرضی احتمال ہی رہے گا"۔
اگرچہ اقتصادی کارکنان یہ توقع کر رہے تھے کہ تہران اور چھ بڑے ممالک کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کے ایرانی منڈی پر مثبت اثرات پڑیں گے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ بالخصوص ایرانی معیشت بنیادی طور پر بدعنوانی اور بد انتظامی کا شکار ہے۔
ٹرمپ حکومت کے آئندہ اہم مہروں کی جانب سے تشویش ناک بیانات کے سبب ایرانی معیشت بالخصوص ملک میں کرنسی کی صورت حال مزید ابتر ہوئی ہے۔

Tuesday 22 November 2016

کرد جنگجوؤں کے حملے میں 50 ایرانی فوجی ہلاک

ترکی اور عراق کی سرحد سے متصل پہاڑی علاقوں میں کرد جنگجوؤں کے ساتھ تصادم میں کم سے کم 50 ایرانی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے ترجمان اور شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ جنرل رمضان شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قندیل اور جاسوسان نامی پہاڑی علاقوں میں کرد جنگجوؤں کے حملوں میں ایرانی ایلیٹ فورس کے 50 اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
ایرانی ذرائع ابلاغ میں شائع جنرل رمضان شریف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق اور ترکی کی سرحد سے متصل علاقوں کرد عسکری پسندوں کے ساتھ خون ریزی جھڑپیں حالیہ ایام میں ہوئی ہیں جن میں دونوں طرف بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔
کردوں اور ایرانی فوج کے درمیان تازہ خون ریزی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دوسری جانب پاسداران انقلاب اور صدر حسن روحانی کے درمیان اختلافات کی افواہیں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔
خیال رہے جبال قندیل اور جاسوسان ایران، ترکی اور عراق تینوں ملکوں کی سرحد پر واقع ہیں۔ ان علاقوں میں کرد عسکریت پسند گروپ سرگرم ہیں جو ترکی اور ایران دونوں میں عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔
کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہ نماؤں نے’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کردوں نے 23 سال تک اپنے جائز حقوق اور مطالبات کے لیے پرامن جدو جہد کی ہے۔ مگر پرامن جد وجہد کے نیتجے میں ایرانی حکومت نے ان کاکوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ اب انہوں نے مجبورا ایران کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں۔

ایران میں دوران حراست تشدد کے مناظر،ویڈیوز دوبارہ وائرل

ایران میں سماجی کارکنوں نے زیرحراست کارکنوں پر پولیس کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مٖظالم پر مبنی ویڈیوز ایک بار پھر انٹرنیٹ پرپوسٹ کی ہیں۔ 
یہ ویڈیوز ایرانی حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوؤں کے بعد پوسٹ کی گئی ہیں، ان دعوؤں میں ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ایران انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کررہاہے۔
 اس کے ساتھ ساتھ ایران، امریکا اور یورپی یونین میں شامل ممالک میں انسانی صورت حال کو مانیٹر کرنے میں سرگرم ہے۔ ایرانی عہدیدار زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے ملک میں انسانی حقوق کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی ہے۔
حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے 10 شرائط سامنے آئی تھیں۔ ان دس شرائط میں ایران میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی روک تھام کی شرط بھی شامل تھی۔
 اس کے جواب میں ایرانی حکام نے کہا تھا کہ اگر مغرب ہمارے ہاں انسانی حقوق کی نگرانی کررہا ہے تو ہم مغرب اور امریکا میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی مانیٹرنگ کررہے ہیں۔
ایرانی مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف جنرل مسعود جزائری نے ایک بیان میں ایرانی حکام پر زور دیا تھا کہ وہ مغرب میں خواتین کے بنیادی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھیں۔
 ان کے اس بیان کے بعد ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین سماجی کارکنان کی طرف سے سخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ خواتین کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام خود کو خواتین کے حقوق کا بدترین استحصال کررہے ہیں مگر وہ دعویٰ مغرب میں خواتین کی حقوق کی مالیوں کی نگرانی کا کرتے ہیں۔
شہریوں پر پولیس کے ہاتھوں وحشانہ تشدد کے مناظر مبنی ویڈیوز میں سے ایک میں پولیس کو ماورائے عدالت برسر عام ملزمان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
 ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ عراقی پولیس نے ہاتھ پاؤں باندھ کر ملزمان کو لاٹھیوں اور کوڑوں سے وحشیانہ طریقے سے پیٹنا شروع کر رکھا ہے۔
ایک دوسری ویڈیو میں ایک نوجوان کو لمبے بال رکھنے کے جرم میں پولیس کے ہاتھوں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنتے دکھایا گیا ہے۔ 
خیال رہے کہ ایرانی عدالتوں کی طرف سے بھی مردوں کے لیے لمبے بال رکھنے کو ایرانی انقلاب اور ان کی خود ساختہ اسلامی تعلیمات کے تحت خلاف قانون قرار دیا جاتا ہے۔
یو ٹیوب پر دوبارہ پوسٹ کی گئی ایک تیسری ویڈیو میں ایرانی پولیس اہلکار ایک نوجوان کے سر کے بال کاٹ رہے ہیں۔ بال کاٹنے کے لیے قینچی کے بجائے دوسرے اوزار استعمال کیے جا رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران میں معمولی معمولی نوعیت کے جرائم پر بھاری اور عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ 
جسمانی اور ذہنی تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد بھی عام ہے۔ 
رہائی پانے والے بیشتر سیاسی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایرانی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے گماشتے انہیں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ جنسی ہراسانی کا بھی نشانہ بناتے رہے۔
دوران حراست قیدیوں کی اموات بھی عام ہیں۔ ان کی بنیادی وجہ ہولناک جسمانی تشدد ہے جو قیدیوں کو موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔
 ایرانی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ بعض قیدیوں پر غیرضرروی تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کی جانیں چلی گئیں۔
 ان میں صحافی ستاربہشتی، صحافیہ زھرا کاظمی، سیاسی کارکن غیبان عبیداوی، محسن روح الامینی، رامین قہرمانی اور 18 سالہ محمد کامرانی کا نام شامل ہے۔

شام میں 1000 ایرانی جنگجو ہلاک ہوچکے!

ایران میں شہداء فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران 1000 ایرانی جنگجو باغیوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ کے مطابق شہداء فاؤنڈیشن کے ایک عہدیدار محمد علی شہیدی نے پاسیج ملیشیا کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام میں ہمارے شہداء کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ چکی ہے۔
شام میں ایرانی فوجیوں اور دیگر جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی یہ تعداد ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حال ہی میں ایران میں تین فوجیوں اور دسیوں غیر سرکاری جنگجوؤں کی تدفین کی گئی ہے۔
 شام میں ہلاک ہونے والے افغان جنگجوؤں پر مشتمل فاطمیون اور پاکستانیوں پرمشتمل ’زینبیون‘‘ ملیشیاؤں کے جنگجو حلب میں مارے گئے۔
ایران کے فارسی ذرائع ابلاغ کے مطابق سنہ 2011ء کے بعد سے شام میں جاری لڑائی کے دوران ایرانی پاسداران انقلاب کے 3000 اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کی فوج شام میں محاذ جنگ پر نہیں لڑ رہی ہے۔

Monday 21 November 2016

ایرانی حکمرانوں کی سادگی اور درویشی کا بھانڈہ پھوٹ گیا

ایرانی جوڈیشل چیف کے 63 بنک اکاؤنٹس میں کروڑوں ڈالر کا انکشاف
ایران میں سنہ 1979ء میں برپا آیت اللہ علی خمینی کے انقلاب کے بعد ان کے جانشین خود کو سفید پوش اور درویش صفت حکمرانوں کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔
 مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کی مثال ایران کی جوڈیشل کونسل کے چیئرمین صادق آملی لاری جانی سے لی جاسکتی ہے جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دسیوں بنک کھاتوں میں کروڑوں ڈالر کی رقم چھپائے ہوئے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے جسٹس صادق آملی لاری جانی المعروف صادق لاری جانی اور ان کے بنک کھاتوں پرایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔ 
رپورٹ کےمطابق صادق لاری جانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے چہتے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ سپریم لیڈر نے انہیں 15اگست2009ء کو پانچ سال کے لیے اس عہدے پر فائز کیا۔
آیت اللہ علی خامنہ ای جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ صادق لاری جانی کی کار کردگی سے بہت مثاثر ہوئے اور دعویٰ کیا کہ جسٹس لاری جانی کے دور میں ایران میں عدلیہ نے غیر معمولی ترقی کی۔ 
لاری جانی کی اسی ’کارکردگی‘ کو سامنے رکھتے ہوئے خامنہ ای نے انہیں 2014ء میں مزید اگلے پانچ سال کے لیے جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ کے عہدے پر توسیع دےدی۔
لاری جانی اور جوڈیشل اتھارٹی کی ترقی
سپریم لیڈر کے چہتے جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ صادق آملی لاری جانی کو ایک عرصے تک سفید پوش سمجھا جاتا رہا۔
 چند روز قبل ان کی سفید پوشی کا بھرم اس وقت کھلا جب پتا چلا کہ موصوف کے دسیوں بنک کھاتے ہیں جن میں بھاری رقوم چھپائی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایران کے فارسی ذرائع ابلاغ اور غیرملکی اخبارات نے بھی ایرانی عدلیہ کے چیف کے بنک اکاؤنٹس اور ان میں رکھی گئی رقوم کے بارے میں رپورٹس شائع کرکے سب کو حیران کردیا۔
ایران کی مقامی فارسی نیوز یوب سائیٹ ’’در‘‘ نے انکشاف کیا کہ جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ جسٹس صادق لاری جانی کے 63 بنک کھاتے ہیں جن میں ایک ہزار ارب ایرانی تومان رقم رکھی گئی ہے۔ امریکی کرنسی میں یہ کرنسی 3 کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔ 
اخبارات کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ بھاری رقوم کئی طریقوں سے جمع کی گئی ہیں۔
 کرپشن کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرنے والے لاری جانی نے مقدمات کے عوض ملنے والی ضمانت کی رقوم اپنے ذاتی کھاتوں میں منتقل کیں۔ اس کے علاوہ ان کے اپنے کئی کھاتوں میں رکھی گئی رقم سے انہیں ماہانہ 22ارب تومان منافع ملتا رہا ہے۔
 یہ منافع امریکی کرنسی میں چھ ملین 8 لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔
صادق لاری جانی کا دفاع
ایران میں جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ کے پر اسرا بنک کھاتوں اور ان میں منتقل کی گئی بھاری قوم کی خبریں سامنے آنے کے بعد کئی حکومتی عہدیدار ان کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
 صادق آملی لاری جانی کے دفاع میں بولنے والوں میں پہلا نام ایرانی وزیر اقتصادیات علی طیب نیا کا ہے۔
انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سرے سے یہ بات تسلیم ہی نہیں کہ جوڈیشل کونسل کے ذاتی 63 بنک کھاتے ہیں اور ان میں خطیر رقم رکھی گئی ہے۔
 تاہم انہوں نے یہ کہا کہ صادق لاری جانی کے چند ایک بنک کھاتوں میں جو رقم رکھی گئی ہے وہ وزارت خزانہ کے مشورےوہان منتقل کی گئی ہے۔ 
یہ رقم صادق لاری جانی کی ذاتی نہیں ہے۔
صادق لاری جانی کے بنک کھاتوں کا معاملہ ایرانی پارلیمنٹ تک جا پہنچا ہے۔
 حال ہی میں ایرانی رکن پارلیمنٹ محمود صادقی نے بھی ایوان کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات میں وزیر اقتصادیات سے استفسار کیا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ صادق لاری جانی کے اتنے بنک کھاتے کیسے بنائے گئے اور ان میں خطیر رقوم کیوں اور کن ذرائع سے ڈالی گئی ہے۔
ایرانی سماجی کارکن اور نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ 6800 لاکھ ڈالر کے جس منافع کی رقم صادق لاری جانی کے بنک کھاتے میں موجود ہے ایرانی قانون کے تحت اسے جوڈیشل اتھارٹی کے سرکاری کھاتے میں ہونا چاہیے تھا۔
 اس رقم کو جوڈیشل اتھارٹی کی فلاح بہبود اور اس کے ملازمین پر خرچ کیا جاتا۔ مگر اس رقم کو جوڈیشل اتھارٹی کے سربراہ کے ذاتی کھاتوں میں منتقل کیے جانے سے کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
 ادھر دوسری جانب ایرانی عدلیہ اس سارے کیس پر خاموش ہے۔ 
خود صادق لاری جانی کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

Friday 18 November 2016

لبنان: یونیورسٹی کے بعد ہوائی اڈہ بھی امام بارگاہ میں تبدیل

لبنان میں ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے حامی اپنے اثرو رسوخ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سرکاری اداروں کو اپنے مذہبی اور مسلکی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بازنہیں آ رہےہیں۔
 حال ہی میں لبنان کی ایک بڑی یونیورٹی کے سائنس کالج کو حزب اللہ سے وابستہ طلباء نے امام بارگاہ میں تبدیل کرتے ہوئے وہاں پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حق میں نعرے بازی کی تھی۔
دو روز قبل لبنانی دارالحکومت بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کےاندر کی ایک فوٹیج بھی منظر عام پرآئی ہے جس میں حزب اللہ کے حامیوں کے ایک گروپ کو ایران کےحق میں نعرے لگاتے دکھایا گیا ہے۔
 یوں ہوائی اڈے کا اندرونی منظر بھی ایک امام بارگاہ کا نقشہ پیش کررہا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق 2 نومبر 2016ء کو جامعہ لبنان کے سائنس کالج کی ویڈیو کے بعد تازہ ویڈیو میں بھی حزب اللہ کے حامیوں کو ایرانی سپریم لیڈر کی حمایت میں نعرہ زن دیکھا جاسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بیروت کے ہوائی اڈے کے’’ڈی پارچر ہال‘‘ میں یہ مذہبی تقریب ایک تنظیم کی جانب سے منعقد کی گئی تھی جو عراق میں اہل تشیع کے مذہبی مراکز بالخصوص کربلا اور نجف کی زیارت کی مہم چلانے میں سرگرم ہے۔
چودہ نومبر کو پیش آنے والے اس واقعے پر لبنان کے عوامی حلقوں اور سوشل میڈیا پر سخت تنقید کرتے ہوئے حزب اللہ پر اہم نوعیت کے سرکاری مقامات پر متنازع تقریبات منعقد کرنے کی مذمت کی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے کے ایک ہال کو امام بارگاہ میں تبدیل کرکے سرکاری املاک کا ناجائز استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
 ہوائی اڈے کے ہال کو ایسی عبارتوں اور نعروں سے سجایا گیا ہے گویا نجف کو رفیق حریری ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گیا ہو۔

ایران نواز حوثی باغیوں کی طرف سے داغے گئے بلیسٹک میزائل کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ

اسلامی تعاون تنظیم نے ایکشن کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دے دی
اسلامی تعاون تنظیم ’’او آئی سی‘‘ نے مکہ معظمہ پر اکتوبر کے آخر میں یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کی طرف سے داغے گئے بلیسٹک میزائل کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
 حوثیوں کے مقدس مقامات کی طرف میزائل حملے کی کوشش کو اقوام متحدہ میں اٹھائے جانے کا مقصد آئندہ کے لیے اس طرح کے مجرمانہ واقعات کی روک تھام کرنا اور اقوام عالم کو حوثیوں کی ریشہ دوانی کی سنگینی سے آگاہ کرنا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ’او آئی سی‘ کے وزراء خارجہ کا اجلاس گذشتہ روز مکہ معظمہ میں ہوا۔
 اجلاس میں تنظیم کے 50 رکن ملکوں کے مندوبین اور وزراء خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں حوثیوں کی طرف سے سعودی عرب میں مقامات مقدسہ پر میزائل حملے کی کوشش کی مذمت کی گئی۔
 اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ ’او آئی سی‘ کی ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف سے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کو تحریری طور پر حوثیوں کے بیلسٹک میزائل حملے کے حوالے سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ عالمی ادارے کی طرف سےسعودی عرب میں مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔
اجلاس کے آخر میں جاری کردہ بیان میں رواں ماہ جدہ میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کے دوران منظور کردہ اس قرارداد کی حمایت کی گئی جس میں سعودی عرب اور عالم اسلام میں مقدس مقامات پر حملوں کی شدید مذمت اور اسے سنگین جرم قرار دیا گیا تھا۔
 اس قرارداد میں واضح کیا گیا تھا کہ سعودی عرب میں مقدس مقامات کی طرف میزائل حملے کی ناکام سازش کرنے والے عناصر اور ان کے پشتیبان بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو باغیوں کو اسلحہ، رقوم اور دیگر عسکری امداد باہم پہنچا رہے ہیں۔
 رواں ماہ جدہ میں او آئی سی کے وزارتی سطح کے اجلاس کےدوران واضح کیا گیا تھا کہ یمن میں باغیوں کی مدد کرنے والے ممالک اور قوتیں فرقہ واریت کے فروغ اور دہشت گردی کی معاونت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
گذشتہ روز منعقدہ اجلاس ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی گئی جو مکہ معظمہ پر میزائل حملے کی سازش کے حوالے سے موثر اقدامات کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل مرتب کرے گی۔
 اجلاس میں اسلام تعاون تنظیم کے رکن مماملک کے درمیان اتحاد اور رابطے بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دینے کے ساتھ ساتھ مسلمان ملکوں میں استحکام، ترقی اور اسلامی کی حقیقی روح کو فروغ دینے سے اتفاق کیا گیا۔
اس موقع پر سعودی عرب کے وزیر برائے خارجہ امور نزار مدنی نے کہا کہ ان کا ملک حرمین شریفین کے دفاع میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے مقدس مقامات کو لاحق خطرات کے انسداد کے لیے تمام مسلمان ملکوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

عراق سے روزانہ 40 ہزار بیرل تیل ایران اسمگل ہونے لگا

شیعہ ملیشیا مرضی سے تیل نکال کر ایران کو فراہم کرنے میں سرگرم
عراق میں حکومت کی ناک تلے ایران نواز شیعہ عسکری گروپ الحشد الشعبی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ایران کو یومیہ 40 ہزار بیرل تیل فراہم کررہی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق عراقی حکومت کے ایک ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شمالی عراق میں کئی گیس فیلڈ حشد الشعبی شیعہ ملیشیا کے زیرکنٹرول ہیں جہاں سے یومیہ ہزاروں بیرل تیل نکالا جاتا ہے۔
 تیل کی وافر مقدار ایران کو اسمگل کی جا رہی ہے۔ عراقی حکومت کو اس کا علم ہےمگر وہ شیعہ ملیشیا کے سامنے بے بس ہے۔
حکومتی ذریعے نے BasNews ویب پورٹل کو بتایا کہ شمالی عراق کےشہر تکریت اور تکریت طوز خورماتو کے درمیان تیل کے21 کنوئیں حشد الشعبی کے کنٹرول میں ہیں جہاں سے نکالا جانے والا تیل شیعہ ملیشیا ہی کی مرضی سے فروخت کیا جاتا ہے۔
اس میں سے چالیس ہزار بیرل تیل یومیہ ایران کو اسمگل کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ الحشد الشعبی کے جنگجو تیل کے کنوؤں سے نکالا جانے والا تیل آئل ٹینکروں پر لاد کر صوبہ دیالی اور صلاح الدین سے بندرگاہوں تک پہنچاتے ہیں۔
 یہ ٹینکر عراقی فوج اور پولیس کی قائم کردہ چیک پوسٹوں سے گذرکرجاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسے بغیر کسی قیمت کے مفت میں ایران کو فراہم کیا جا رہا ہے۔
ایران کے صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تہران حکومت یومیہ چالیس لاکھ بیرل تیل برآمد کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ 
ایران کا دعویٰ ہے کہ تیل کی بین الاقوامی تنظیم میں یہ اس کی برآمد کا قانونی حصہ ہے مگر ایرانی ماہرین کچھ اور کہانی بیان کرتے ہیں۔
 ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی اپنی تیل کی پیداوار تین ملین اور 8 سو بیرل سے زیادہ نہیں ہے۔ ایران کے پاس اضافی تیل کہاں سے آتا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
حال ہی میں عراق کے صوبہ صلاح الدین کے گورنر احمد عبداللہ الجبوری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران شمالی عراق کے شہر تکریت میں تیل کے بڑے کنوؤں بالخصوص علاس اور عجیل کے تیل کی حفاظت پر زور دیا تھا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے سوا کسی بھی تنظیم کو تیل کے کنوؤں کو تصرف میں لانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان نے ایران کو طیاروں کی فروخت روک دی

امریکا کے ایوان نمائندگان نے جمعرات کے روز ایک نئے مسودہ قانون پر رائے شماری کے دوران ایران کو ہوائی جہازوں کے فروخت پر پابندی عاید کردی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی کانگریس میں ایران کو بوئنگ کمپنی کے ہوائی جہازوں کی فروخت کے حوالے سے ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن پارٹی کے درمیان سخت اختلافات پائے جا رہے تھے۔
 اس حوالے سے گذشتہ روز ایوان نمائندگان میں ایک بل پیش کیا گیا جس پر رایے شماری کی گئی۔ رائے شماری کے دوران ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت نے ایران کو ہوائی جہازوں کی فروخت کی مخالفت کی۔
اس بل کی سینٹ اور صدر کی جانب سے منظوری کے بعد امریکی وزارت خزانہ کو بھیجا جائےگا جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امریکا کا کوئی بنک ایرانی یکمپنیوں کے ساتھ کسی قسم کا براہ راست یا بالواسطہ لین دین نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں ایران کو طیاروں کی فروخت پر پابندی کا بل ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے کہ دو روز قبل ایوان نمائندگان نے ایران پر پابندیوں کےیک نئے مسودے کی منظوری دی تھی۔ 
اس بل کے تحت ایران پر مزید 10 سال کے لیے اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
 پابندیوں سے متعلق بل کی حمایت میں 419 ووٹ ڈالے گئے۔
ری پبلیکن پارٹی کے رکن کانگریس اور ایران کو طیاروں کی فروخت کی مخالفت میں بل تیار کرنے والے بیل ہویزنگا کا کہنا ہے کہ ہوائی جہازوں کی ایران کو فروخت تہران کے فوجی اور اسلحہ کے پروگرام میں معاونت ہوگی۔ 
ہمیں موجودہ صدر باراک اوباما ہی کے عہد میں اس بل کو منظور کرانا ہے۔
البتہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض ارکان اس بل کے مخالف ہیں۔ مخالفت کرنے والوں میں رکن کانگریس ماکسین واٹرز کا کہنا ہے کہ ایران کو ہوائی جہازوں کی فروخت امریکا اور ایران کے درمیان طے پائے جوہری معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش ہوگی۔

ٹرمپ کے متوقع وزیر خارجہ کا ایرانی حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ

امریکا کے اقوام متحدہ میں سابق سفیر اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں وزارت خارجہ کے ایک امیدوار جون بولٹن نے ایران کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یران میں حکومت تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے جون بولٹن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی طرف سے دنیا اور خطے کے ملکوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ میرے خیال میں ایرانی خطرے کا طویل البنیاد حل تہران میں حکومت کی تبدیلی کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ 
سابق امریکی سفیرنے کہا کہ ایران کے مذہبی پیشوا خطے کے ملکوں اور پوری دنیا کے امن وسلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جون بولٹن نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ایران میں مقتدر نظام کے خاتمے سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے تاہم تہران کی طرف سے سب سے بڑا خطرہ ٹل جائے گا۔
انہوں نے موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کی ایران بارے پالیسی کو بھی ہدف تنقید بنایا، انہوں نے کہا کہ سنہ 2009ء میں ایران میں ہونے والے احتجاج کے دوران ایرانی عوام نےامریکا کو مددکے لیے پکارا تھا۔
 ایرانی عوام نے کہا تھا کہ امریکا یا تو ان کےساتھ کھڑا ہو یا حکومت کا ساتھ دے۔ مگر امریکی انتظامیہ ایرانی عوام کی کوئی مدد نہیں کرسکی۔
خیال رہے کہ جون بولٹن امریکا کے جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔ وہ امریکا اور ایران کے درمیان طے پائے اس معاہدے کے بھی سخت خلاف رہےہیں جس کے تحت تہران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے کااعلان کیا تھا اور اس کے بدلے میں امریکا اور عالمی طاقتوں نے تہران پر عاید اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
 جون بولٹن کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں۔
یہ روٹین کا معمولی نوعیت کا معاہدہ ہے۔
جون بولٹن کو مشرق وسطیٰ کے امور میں گہری دسترس حاصل ہے۔ 
ان کا نام ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں وزارت خارجہ کے منصب کے لیے مجوزہ تین ناموں شامل ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق سابق صدارتی امیدوار ’میٹ رومنی‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے وزیرخارجہ بن سکتے ہیں۔

Wednesday 16 November 2016

یمن کے 22 شہروں میں 130 مساجد اور 147 اسلامی مراکز پرحملے کرکے ان کی توڑپھوڑ کی۔


 
 
 
یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی خبریں تو روز آتی ہیں مگر باغیوں کی ریشہ دوانیاں صرف انسانی حقوق کی پامالیوں تک محدود نہیں ہیں۔
 باغی اللہ کے مقدس گھروں کی حرمت کو بھی کھلے عام پامال کررہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کےمطابق سماجی کارکنوں نے یمن کی ایک تاریخی جامع مسجد کے اندرونی مناظر کی دلخراش تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کی ہیں جن میں مسجد کو کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل اور بدترین تباہی اور بربادی کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔
یہ مناظر تعز گورنری کی مسجد توحید کے ہیں جس کے اندر توڑپھوڑ کے ساتھ ساتھ اس میں کوڑا کرکٹ پھینک کر اللہ کے گھر کی انتہائی بھیانک طریقے سے بے حرمتی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
 یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی مسجد کی باغیوں کے ہاتھوں ایسی مجرمانہ بے حرمتی کی گئی ہو۔ صنعاء سے عمران تک اور تعز سے صعدہ تک کوئی شہر ایسا نہیں جہاں کی مساجد یمن کے نام نہاد اسلام کے نام لیواؤں حوثی باغیوں کی دست برد سے محفوظ رہی ہوں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق حوثی باغیوںںے گذژشہ کچھ عرصے کے دوران یمن کے 22 شہروں میں 130 مساجد اور 147 اسلامی مراکز پرحملے کرکے ان کی توڑپھوڑ کی۔
صرف مساجد ہی باغیوں کے نشانے پرنہیں بلکہ ان کے آئمہ، موذنین اور خطباء بھی باغیوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
 مساجد سے وابستہ علماء کو بے دخل کردیا گیا۔ ان کی تنخواہیں بند کردی ہیں اور کئی مساجد کو ویران کرنے کے ساتھ ساتھ بعض کو سے سے شہید کردیا گیا ہے۔
حال ہی میں تعز شہر کی جامع مسجد توحید کے اندرونی مناظر سامنے آئے جن سے یمن میں حوثی باغیوں کے ہاتھوں اللہ کے گھروں کی بے حرمتی کے مجرمانہ طرز عمل کی عکاسی ہوتی ہے۔

جیش النصرکی جیش العدل کے ساتھ بیعت کو کوردستان میڈیا نے بھی اعلان کردیا


Tuesday 15 November 2016

جیش النصر کے مسہولین آکر جیش العدل کے امیر صلاح الدین فاروقی سے تجدید بیعت کی

(واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا)جیش العدل کے مجاھدین تمام اہلسنت کو اطلاع دی جاتی ہیں ۔ 
کہ چند عرصے کی دوری کے بعد پھراللہ تعالی نے دشمن کو شرمندہ کیا اور اہلسنت کی کامیابی ھوی کہ جیش النصر کے مسہولین نے آکر اپنے کو جیش العدل سے ملا دیا ۔
 جیش النصرکو کچھ جزوی اختلافات کی وجہ سے شہید مولوی عبدالروف کی جدای سے جیش النصر وجود میں آیا ۔ اور ایران نے اس جدای اور اختلاف سے فاھدہ اٹھایا اور مولوی عبدالروف کو شہید کردیا ۔ 
بعد از شہادت مولوی عبدالروف الحمدللہ 2016 ۔۔ 10 ۔۔ 28 ۔۔کو جیش النصر کے مسہولین نے آکر امیر جیش العدل صلاح الدین فاروقی سے تجدید بیعت کیے ۔
ھم جیش العدل کی طرف سے اپنے تمام اہلسنت کو مبارک باد دیتے ہیں اور اس بڑے کامیابی کو اپنے دشمنوں کی صفوں میں ایک تھوڑ سمجھتے ہیں ۔
 اور ھمارے دشمن یہ بھی جان لے کہ ھم اپنے شہیدوں کے خون کو اور اہلسنت کے حقوق کو کبھی نہیں بخشتے ہیں ۔
 جیش النصر اور جیش العدل کے بیعت کی فلم ان شاء اللہ جلد شایع کیے جاتے ہیں ۔
 وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ).    

اعلامیه سازمان:انحلال جیش النصر و ادغام نصر به جیش العدل

بنام عدل  (واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا) سازمان جیش العدل به اطلاع عموم می رساند که پس از چند دوره مذاکرات موفق با مسئولین جیش النصر جهت انحلال و ادغام آن با سازمان ،این مهم به فضل الهی انجام و جیش النصر منحل ونیروی های این سازمان به سازمان جیش العدل ملحق گشتند. 
 جیش النصر پس از اختلافات جزیی شهید عبدالرئوف ریگی و جدایی وی از سازمان تشکیل گشت.
مذاکرات گسترده ای در زمان جدایی شهید عبدالرئوف صورت گرفت، وی در نهایت توسط عوامل نفوذی رژیم ترور و به شهادت رسید. پس از شهادت وی نیز رایزنی ها و گفتمان پیرامون برگشت و ادغام مجدد ادامه داشت که بحمدالله در مورخ 28_10_2016 جیش النصر منحل و مسئولین این سازمان مجددا با رهبری سازمان جیش العدل تجدید بیعت نمودند. 
 سازمان جیش العدل انحلال جیش النصر و ادغام مجدد النصر را به ملت بلوچ و عموم اهل سنت تبریک عرض نموده واین پیروزی بزرگ را نشانه پایانی بر اختلاف ، نفاق و نفوذ دشمن بر صفوف مبارزین می داند.
 سازمان جیش العدل متعهد بر اهداف والای خویش و با تعهد بر خون شهدا و با تجدید میثاق با ارمانهای بلند ملت بلوچ و اهل سنت اعلام می دارد که در راستای شکست دشمن از هیچ قربانی دریغ نخواهد کرد،و دشمن بداند که تیر نفاق و شیطنت وی هرگز نمی تواند مانعی بر سر راه مقاومت ایجاد نماید.
 (وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ ) فیلم انحلال نصر و‌ادغام آن با سازمان طی دو روز آینده از طریق وبگاههای سازمان منتشر خواهد شد.

عاجل - جيش النصر ينحل ويندمج مع جيش العدل؛ وجميع افراده يجددون البيعة للأمير فاروقي ويرجعون لمعسكرات الحركة . الحمدلله على منه وإحسانه.

عاجل - جيش النصر ينحل ويندمج مع جيش العدل؛ وجميع افراده يجددون البيعة للأمير فاروقي ويرجعون لمعسكرات الحركة . الحمدلله على منه وإحسانه.
القائد صلاح الدين فاروقي والإخوة جميعاً مستبشرون خيرا
بعودة إخوتنا إلى حاضنة الوحدة
وبيعة العزة، عفى الله عما سلف

Monday 14 November 2016

شام : لڑائی میں تین ایرانی فوجی افسر ،دسیوں پاکستانی اور افغان ہلاک

شام کے شمال مغربی صوبے حلب میں باغی گروپوں کے خلاف حالیہ لڑائی میں ایران کے تین فوجی افسروں سمیت پاکستان ،افغانستان سے تعلق رکھنے والے دسیوں شیعہ جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔
ایران کے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حلب کے مشرق میں پاسداران انقلاب کے تین فوجی افسر اور افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی ملیشیاؤں کے دس سے زیادہ شیعہ جنگجو صدر بشارالاسد کی فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں۔
اس سے قبل ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کا ایک رپورٹر محسن خزائی حلب ہی میں ہفتے کے روز لڑائی میں ہلاک ہوگیا تھا۔ اس پر اپنی صحافت کو فرقہ پرستی کے فروغ کے لیے استعمال کرنے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
درایں اثناء شامی گروپ ''جیش الحر ادلب'' نے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری ہے جس میں ایرانی ملیشیا پر ایک تھرمل راکٹ کے حملے کو فلمایا گیا ہے۔
اس حملے میں ایرانی ملیشیا کے متعدد جنگجو ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔
حلب کے محاذ پر حال ہی میں ایرانی فوج کے متعدد اعلیٰ افسر ہلاک ہوئے ہیں جبکہ شامی باغیوں کے خلاف لڑائی میں ایرانیوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
 ایرانی میڈیا نے حلب میں جاری لڑائی میں ہلاک ہونے والے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کی شناخت بھی ظاہر کی ہے۔ان کے نام اور عہدے یہ ہیں:
پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے بریگیڈیئر جنرل ہادی زاہد ،خصوصی یونٹ کے میجر جنرل ذاکر حسین اور کمانڈوز یونٹ کے بریگیڈیئر جنرل محمد علی محمد حسینی ۔
ایران کے فارسی زبان کے میڈیا ذرائع کے مطابق شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع میں باغی گروپوں کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہونے والے پاسداران انقلاب ایران کے اہلکاروں کی تعداد تین ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے۔

معروف ایرانی علماء کی فاحشہ عورتوں کے ساتھ نازیبا تصاویر کا انکشاف





ایران کے ایک سخت گیر عالم جعفر شجونی کی ذاتی زندگی سے متعلق ان کی وفات کے کوئی دو ہفتے کے بعد ایک نیا اسکینڈل منظرعام پر آیا ہے۔
اس اسکینڈل کا انکشاف واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے فارسی میڈیا ذرائع نے کیا ہے اور اس نے ان کی 1970ء کے عشرے کی بعض نازیبا تصاویر جاری کی ہیں۔ ان میں علامہ شجونی اپنے بستر پر نامعلوم فاحشہ عورتوں کے ساتھ نیم برہنہ لباس میں نظر آرہے ہیں۔
علامہ شجونی ایرانی پارلیمان کے سابق رکن بھی رہے تھے۔دو ہفتے قبل ان کی وفات پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی تعزیت کا اظہار کیا تھا اور انھیں ان کی سیاسی و دینی خدمات پر بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔
ایک اور سخت گیر ایرانی عالم محمد تقی فلسفی کی بھی اسی طرح کی تصاویر جاری کی گئی ہیں اور وہ بھی ایک فاحشہ عورت کے ساتھ ملوّث پائے گئے ہیں۔علامہ شجونی نے اپنی وفات سے مہینوں قبل ان تصاویر کی صحت سے انکار کیا تھا اور انھیں جعلی قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تصاویر 1979ء میں انقلاب سے قبل شاہ ایران کے تحت انٹیلی جنس ایجنسی نے بنائی تھیں۔
 تاہم ان کا کہنا تھا کہ علامہ تقی فلسفی کی عورتوں کے ساتھ تصاویر اصلی تھیں۔
انھوں نے الزام عاید کیا تھا کہ یہ فاحشہ عورتیں ایران کی خفیہ پولیس ساواک کے لیے کام کررہی تھیں۔
فارسی امریکی چینل کو مبینہ طور پر یہ قابل اعتراض تصاویر سابق شاہ ایران محمد رضا پہلوی کے تحت کام کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک سابق اہلکار نے مہیا کی تھیں۔

Sunday 13 November 2016

ایران اور دنیا کے روافض کیوں حضرت عمر (رض) کے نام سے خوف زدہ ھوتے ہیں


ایران اور دنیا کے روافض کیوں حضرت عمر (رض) کے نام سے خوف زدہ ھوتے ہیں 
ایران کے ایک شہرکے روڈ میں حضرت عمر (رض) کے نام کا ایک اسٹریٹ بورڈ لگا ھوا تھا ۔
 اس بورڈ کو دیکھ کر ایرانی حکومت برداشت نہ کر سکا اور اس بورڈ کو نکال کر لے گہے ۔  

"ایران دہشت گردی کا سرپرست"

اقوام متحدہ کو ارسال کیے جانے والے ایک خط میں 11 عرب ممالک نے خطے میں ایران کی توسیعی پالیسیوں کے جاری رہنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
 خط میں یمن کے تنازع میں ایرانی کردار کی بھی مذمت کی گئی جہاں وہ حوثیوں باغیوں کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کو بڑی تعداد میں اسمگل بھی کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں سیشن کے سربراہ پیٹر تھومسن کو خط ارسال کرنے والے ممالک میں خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک کے علاوہ مصر ، اردن ، مراکش ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔
 اس خط کو اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے درماین بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست ہے۔
 وہ لبنان اور شام میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کے علاوہ بحرین ، عراق ، سعودی عرب ، کویت اور دیگر ممالک میں دہشت گرد جماعتوں اور گروپوں کو سپورٹ کرتا ہے۔
یمن میں عرب اتحاد کے حوالے سے ایرانی وفد کے رکن کے اعتراض کے جواب میں واضح کیا گیا ہے کہ "عزم کی آندھی" آپریشن یمن کی آئینی حکومت کی جانب سے خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ میں کیے جانے والے مطالبے پر شروع کیا گیا۔
خط پر دستخط کرنے والے ممالک نے آبنائے باب المندب میں اماراتی بحری جہاز پر حوثیوں کے حملے کے بعد متحدہ عرب امارات کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔
یکساں عرب موقف
ادھر امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور محمد قرقاش نے باور کرایا ہے کہ اقوام متحدہ میں اجتماعی سفارتی تحریک درحقیقت ایرانی دعوؤں کے حوالے سے متحدہ عرب موقف اور مطلوبہ مشترکہ عرب عمل ہے جس سے ہمارے موقف کو تقویت ملتی ہے۔
قرقاش نے ہفتے کے روز " ٹوئیٹر" پر اپنے بیان میں کہا کہ "خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک ، مصر ، مراکش ، سوڈان ، اردن اور یمن کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جنہوں نے جنرل اسمبلی کے نام مشترکہ خط ارسال کیا تاکہ ایرانی دعوؤں کا بر وقت جواب دیا جا سکے"۔