ایران میں معمولی جرائم سے لے کر سنگین جرائم کے مرتکب افراد کے لیے ویسے تو ان گنت جیلیں اور عقوبت خانے قائم ہیں مگر ان میں سے بعض قید خانے صرف خواتین قیدیوں کے لیے مختص ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے خواتین کے لیے مختص انتہائی خطرناک ایرانی جیل اور وہاں کے حالات پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرق تہران کے صحرائی علاقے میں قائم ’’قرچک‘‘ جیل خواتین قیدیوں کے لیے مختص ہے۔
یہ ایران اپنے اندرونی بھیانک مناظر، اسیرات سے بدسلوکی، قیدی خواتین کو جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور دیگر مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے یہ جیل ایران کی بدنام زمانہ زنداں تصور کیا جاتا ہے۔
ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی زیر نگرانی ’’ہرانا‘‘ نیوز ایجنسی نے ’’قرچک‘‘ جیل کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے۔
اس رپورٹ میں بھی مذکورہ جیل کو ایران کی بدنام زمانہ جیل قرار دیا گیا ہے۔
اس جیل میں پابند سلاسل خواتین کو جہاں ہمہ نوع تشدد اور دیگر ظالمانہ حربوں کا سامنا ہے وہیں کئی خواتین اسیران جان لیوا امراض کا شکار ہونے کے باوجود بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم رکھی جاتی ہیں۔
خواتین اسیرات کی تعداد اور جیل کی گنجائش
رپورٹ کے مطابق قرچک جیل کے سات بلاکوں میں 2000 خواتین پابند سلاسل ہیں۔ ایک بلاک میں 200 سے 300 کے درمیان خواتین کو قید کیا گیا ہے۔
بعض خواتین کو ان کے شیر خوار بچوں کے ہمراہ پابند سلاسل رکھا گیا ہے اور وہ ایک سال سے بچوں کے ہمراہ قید ہیں۔
جیل کے تمام سات بلاکس کل 1500 میٹر پر بنائے گئے ہیں۔ ایک بلاک 400 میٹر پر مشتمل ہے۔ گویا ایک خاتون قیدی کے لیے جیل میں 20 سینٹی میٹر کی جگہ مختص ہے۔
جیل میں کمرے نہیں بلکہ لمبے اور کھلے صحن نما ہال ہیں۔ مجموعی طور پرپوری جیل میں 600 بستر ہیں جہاں ایک وقت میں چھ سو خواتین سو سکتی ہیں اور باقی 1400 خواتین اور ان کے بچوں کو زمین پر رہنا پڑتا ہے۔
آبرو ریزی اور اذیتیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ ’قرچک‘ جیل میں ڈالی گئی خواتین کو انواع واقسام کے پرتشدد حربوں اور اذیتوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی عزتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جیلر اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار خواتین قیدیوں کی سرعام تذلیل کرتے ہیں۔ انہیں گالیاں دیتے، مارتے پیٹتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے ہیں۔
جیل میں ڈالی گئی خواتین بدترین نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں اور نفسیاتی طور پر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں۔
خواتین قیدیوں کو احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں۔ اگر ناقص خوراک کی شکایت اور طبی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کرنے کی کوشش کرے تو اسے قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔
قید تنہائی بھی اسیرات کو اذیت پہنچانے کا ایک منظم حربہ ہے۔
طبی سہولیات اور خوراک سے محروم
جیل میں سفائی ستھرائی کا کائی معقول انتظام نہیں۔ جیل کے ایک بلاک میں صرف 4 بیت الخلاء ہیں۔ سردیوں میں صرف ایک گھنٹہ گرم پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ جیل کے قریب ایک چھوٹا سمندر ہے جس کا نمکین اور کھارا پانی جیل کو سپلائی کیا گیا ہے۔ یہ کھارا پانی خواتین قیدیوں کے لیے جلد اور دیگر امراض کا موجب بن رہا ہے۔
بیمار پڑنے والی خواتین قیدیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں اور نہ ہی اسیرات کو اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا جاتا ہے۔
خواتین قیدیوں تک بلیک مارکیٹ سے ادویہ پہنچائی جاتی ہیں اور مریض اسیرات مجبورا معمولی نوعیت کی ادویات بھی بھاری قیمت کےعوض دوائی خرید کرنے پر مجبور ہیں۔
جیل میں ایڈز اور جگر کے امراض وباء کی شکل میں پھیل رہے ہیں۔ حال ہی میں قرچک جیل کے ڈائریکٹر صحت نے کہا تھا کہ کئی خواتین قیدی ایڈز جیسے موذی مرض کا شکار ہیں مگر ہم ان کی اصل تعداد سے آگاہ نہیں ہیں۔
ان تمام خواتین کے معائنے کے لیے غیر معمولی اخراجات کی ضرورت ہے۔ خود خواتین بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ ایڈز کا شکار ہیں۔
صحت کی طرح خوراک کی صورت حال بھی انتہائی ناقص ہے۔ خواتین اسیرات کو ضرورت کے مطابق پوری خوراک نہیں دی جاتی۔
بیشتر اوقات میں اسیرات کو آلو کے سالن کے ہمراہ ایک یا دو روٹیاں دی جاتی ہیں۔ ناقص خوراک کے باعث خواتین قیدی وٹامنز کی قلت کا شکار ہیں۔
خواتین کی دیگر ایرانی جیلیں
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک دوسری رپورٹ میں ایران میں خواتین کے لیے مختص جیلوں کا احوال بیان کیا تھا۔ اس ضمن میں ایران کی سیاسی اسیرہ افسانہ بایزید کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے۔
افسانہ بایزیدی ’کرمان‘ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی کارکن اتینا فرقدانی کو ’’اوین‘‘ جیل میں ڈالا گیا ہے۔
جہاں اس پر تشدد کی ایک ویڈیو بھی منظرعام پر آ چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فرقدانی کی گرفتاری کے وقت ایرانی انٹیلی جنس غنڈوں نے اس کے کپڑے تک تار تار کرڈالے تھے۔
فہیمہ اسماعیلی بھی ایک سیاسی قیدی ہیں جن کا تعلق ایران کے عرب اکثریتی صوبہ الاھواز سے ہے۔
اسے بھی دوران حراست ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہوگئی تھیں۔ وہ پچھلے دس سال سے وسطی ایران کے یاسوج شہر کی ایک جیل میں 15 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔