Saturday 9 July 2016

ایرانی قوم ’خمینی مظالم‘ کا سب سے زیادہ شکار ہوئی

عالم اسلام ایرانی قوم کے حقوق کی حمایت کرے:شہزادہ الفیصل
سعودی عرب کےسابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا ہے کہ ایرانی قوم آیت اللہ علی خمینی کے قائم کردہ ولایت فقیہ کے نظام حکومت اور اس کے مظالم سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔
 انہوں نے عالم اسلام سے خمینی رجیم سے نجات دلانے کے لیے ایرانی قوم کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ ترکی الفیصل نے ان خیالات کا اظہار فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایرانی اپوزیشن کی جانب سے منعقد کردہ ایک کانفرنس سے خطاب میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں ولایت فقیہ کے نظام کے ظلم کا سب سے زیادہ شکار وہاں کے عوام ہوئے ہیں۔
 ایران کے مرشد اعلیٰ نے ایران سے باہر دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں بھی دخل اندازی سے گریز نہیں کیا۔
شہزادہ الفیصل نے کہا کہ خمینی رجیم نے نہ صرف اپوزیشن اور سیاسی کارکنوں کو کچلنے کی کوشش کی بلکہ پورے ایران میں نسل اور مذہب کی بنیاد پر بھی تفریق کرتے ہوئے مظالم ڈھائے گئے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز پیرس میں ایرانی اپوزیشن کی جانب سے ’’میں ایرانی رجیم کا تختہ الٹنا چاہتا ہوں‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ کانفرنس میں ایرانی حزب اختلاف کی نمائندہ شخصیات سمیت دوسرے ملکوں کے سیاسی رہ نماؤں نے بھی شرکت کی۔

فرانس میں ہزاروں افراد کا ایرانی رجیم کے خاتمے کا مطالبہ

ایرانی اپوزیشن کی نمائندہ جماعتوں اور سیاسی رہ نماؤں سمیت ہزاروں افراد نے ملک میں قائم ولایت فقیہ کے نظام کے خاتمے کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے خمینی رجیم کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق گذشتہ روز پیرس میں ایرانی اپوزیشن کی جانب سے ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر میں موجود ایرانی اپوزیشن کے رہ نماؤں ، سیاسی کارکنوں اور ایرانی تارکین وطن نے شرکت کی۔ 
کانفرنس میں امریکا، یورپ اور عرب ممالک کی اہم شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
 پیرس میں منعقدہ کانفرنس میں پانچ براعظموں میں پھیلے لاکھوں ایرانیوں نے شرکت کر کے ایرانی رجیم کے خلاف اپنی جدوجہد تیز کرنے کا اعلان کیا۔
دو روزہ کانفرنس کے دوسرے روز بھی دنیا کے مختلف ملکوں سے نمائندہ ایرانی شخصیات اس میں شرکت کی۔
 گذشتہ روز کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ایران میں شہری آزادیوں پر ریاست کی جانب سے قدغنیں لگانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
 ایرانی حکومت کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر کارکنوں کو پھانسیاں دینے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑے جانے پر ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا بھی اعلان کیا ہے۔
 اس کے علاوہ اس کانفرنس میں ایرانی اپوزیشن مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل پر بھی غور کریں گے۔ 
جمعہ کے روز منعقدہ کانفرنس کے سیشن کے لیے ’’مشرق وسطیٰ کا بحران اور اس کا حل؟‘‘ کا عنوان رکھا گیا تھا جس میں مغربی ملکوں اور عرب ممالک کے سفارت کاروں اور سیاسی رہ نماؤں نے شرکت کی۔ 

نسل پرستی میں بھارت پہلے اور ایران دوسرے نمبر پر

ایران میں اہل سنت مسلک کے مسلمان انتقامی سیاست کا شکار
عرب ممالک میں ایران کی بلا جواز مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
 شامی قوم کے خلاف مظالم ڈھانے میں صدر بشارالاسد کی مدد کرنا ہو یا عراق کا امن وامان تاراج کرنا ہو، ہر جگہ تہران کسی نا کسی شکل میں مداخلت کا مرتکب پایا جاتا ہے۔ 
ایران ایسے کیوں کرتا ہے تو ایک دستاویزی رپورٹ میں اس کا جواب یہ دیا گیا گیا ہے کہ ایران ایک نسل پرست ملک ہے جو اپنے مخصوص نسل پرستانہ مفادات کے حصول کے لیے دوسری اقوام کو قربانی کا بکرا بنا رہا ہے۔
 ایران پر نسل پرستی کے فروغ میں ملوث ہونے کا الزام کوئی من گھڑت کہانی یا افسانہ ہرگز نہیں بلکہ تہران کے نسل پرستی میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
 کہ نسل پرستی کے فروغ میں پہلے نمبر پربھارت اور دوسرے نمبر پر ایران ہے۔ سویڈین کے ماہرین نے نسل پرستی میں ملوث ہونے کے حوالے سے 80ملکوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔
 اس فہرت میں بھارت پہلے اور ایران دوسرے نمبر پر ہے۔
نسل پرستی میں ملوث ہونے کی فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا گیا ہے جہاں ایک سے زاید اقوام آباد ہیں۔
 ایران میں رہنے والے عرب باشندوں اور اہل سنت مسلک کے لوگوں کو انتقامی پالیسیوں کا سامنا ہے۔ ایران میں عرب شہری کل آبادی کی 10 فی صد نمائندگی کرتے ہیں۔ 
ایران کے عرب اکثریتی شہروں اور اہم مقامات کے عربی نام تبدیل کرتے ہوئے ان کے فارسی نام رکھے گئے ہیں۔ 
عرب شہریوں کو اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ فوج اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر عرب شہریوں کا کوئی حق نہیں۔
جہاں تک مذہبی منافرت کا تعلق ہے تو اس باب میں بھی ایران دوسرے ممالک پر سبقت لے گیا ہے۔
 ایران میں اہل سنت مسلک کے مسلمانوں کے خلاف سنہ 2011ء کے بعد انتقامی سیاست نے زور پکڑا اور گذشتہ چار برسوں میں 400 سنی مسلمانوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ایران میں اہل سنت مسلک کے مسلمانوں کی تعداد دو کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ مگر سنی مسلمان ایرانی پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے۔ 
تہران میں ایک بھی جامع مسجد نہیں۔ اہل سنت مسلک کی کتب کی فروخت پر بھی پابندی عاید ہے جو ایران کی مذہبی نسل پرستی کی بدترین شکل قرار دی جاتی ہے۔
ایران میں سرکاری سطح پرعرب شہریوں اور اہل سنت مسلک کے لوگوں کے خلاف باقاعدہ مہمات چلائی جاتی ہیں۔
 سرکاری میڈیا بڑھ چڑھ کر ان مہمات میں حصہ لیتا ہے۔

ایران اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے شام کی حمایت کررہا ہے: اپوزیشن

فرانس میں مقیم ایرانی حزب اختلاف کی تحریک برائے آزادیِ ایران کی سربراہ مریم رجوی نے کہا ہے کہ ''تہران اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے شامی رجیم کے قتل عام کی حمایت کررہا ہے''۔
قومی کونسل برائے مزاحمت ایران (این سی آر آئی) کی منتخب صدر نے پیرس میں منعقدہ ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ولایت الفقیہ نظام کی جو لوگ مزاحمت کررہے ہیں،ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ اپنے اثرات بڑھا رہے ہیں''۔
رجوی کا کہنا تھا کہ اب آیت اللہ علی خامنہ ای کا حلقہ فرار کی راہیں ڈھونڈ رہا ہے۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ''ایران میں 1979ء کے انقلاب کے بعد سے لوگوں کی ہلاکتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ایران کو موجودہ ابتر صورت حال سے نکالنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ نظام کی تبدیلی ہے''۔
این سی آر آئی کا کہنا تھا کہ ''آزاد ایران'' اجتماع میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوئے ہیں۔اس میں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان اور سرکردہ عالمی شخصیات نے شرکت کی ہے۔
سعودی عرب کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ ترکی الفیصل نے بھی اس موقع پر تقریر کی ہے اور حاضرین نے انھیں بھرپور داد دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ''ایرانی عوام آیت اللہ روح اللہ خمینی کے اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے شکار ہوئے تھے''۔
انھوں نے کہا کہ ''خمینی اور ان کے پیروکاروں نے دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کو برآمد کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ بارہ ائمہ کے سلسلے کے آخری امام مہدی المنتظر کی آمد کے سلسلے کو تیز کیا جاسکے''۔
ریلی کے شرکاء نے ان کی تقریر کے دوران ایرانی رجیم کے خلاف اور اس کے خاتمے کے حق میں نعرے بازی کی۔
وہ عرب بہاریہ تحریکوں کی طرح حکومت مخالف نعرے بازی کررہے تھے۔

Thursday 7 July 2016

جیش العدل کے مجاھدین نے عید کے پہلے دن 4 ایرانی فوجیوں کو ہلاک و کئی زخمی اور اسلحہ غنیمت


جیش العدل کے مجاھدین تمام اہلسنت کو اطلاع دی جاتی ہیں کہ 2016 ۔ 07 ۔ 06 کو عید کے پہلے دن ایران کے شہر جکیگورکے علاقے میں ایک بڑے خطرناک حملے کیے جس میں 4  ایرانی فوجی ہلاک و کئی زخمی اور ان کے اسلحے غنیمت میں لے آئے  ۔ 
 الحمدللہ مجاھدیں فدائیان جیش العدل بحفاظت اپنے کیمپ میں پہنچ گئے ۔ جیش العدل کے مجاھدین ایرانی روافض افواج و خامناہ ای اور اسکے مزدوروں کو خبردار کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ جب تک بے گناہ اہلسنت کے پکڑ دھکڑ اور پانسی کو نہ روکھا گیا تو جیش العدل کے جان فدا مجاھدین ایسے حملے کرتے رہیں گے اور ایران کو رافضیوں کے قبرستان بنادیںگے ۔  ( ان شاء اللہ  

Wednesday 6 July 2016

جیش العدل کے مجاھدین نے آج عید کے پہلے دن ایرانی فوجیوں پر خطرناک حملے کیے

جیش العدل کے مجاھدین تمام اہلسنت کو اطلاع دی جاتی ہیں کہ آج عید کے پہلا دن ایران کے شہر جکیگورکے علاقے میں ایک بڑے خطرناک حملے میں کئی ایرانی فوجی ہلاک و زخمی کئے ۔ 
جیش العدل کے مجاھدین کا کہنا ہے کہ جب تک اہلسنت کے ساتھ نا انصافی ختم نہیں کیا گیا تو ھمارے جنگ جاری رہے گی ۔ ان شاء اللہ  

ایران: عید سے قبل تہران میں سنیوں کی واحد جائے نماز پر چھاپہ

ایران میں سیکورٹی فورسز نے منگل کی شام تہران کے علاقے "پونک" میں واقع ملک میں سنیوں کی واحد جائے نماز پر چھاپہ مار کر ، عید سے پہلے اہل سنت شہریوں کو رمضان کے آخری روز نماز اور عبادت سے روک دیا۔
یاد رہے کہ "پونک" کی یہ جائے نماز ایک چھوٹی سی عمارت ہے جو ایرانی دارالحکومت تہران میں اہل سنت کے لیے باجماعت نماز کا واحد مقام شمار کی جاتی ہے۔ جولائی 2015 میں تہران کی بلدیہ نے پولیس اور سیکورٹی فورسز کی معاونت کے ساتھ اس جائے نماز کو ڈھادیا تھا۔ 
تاہم بعض نمازیوں نے اس کے کچھ حصے کی دوبارہ تجدید کر دی تھی جو اب نماز کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
"بلوچ کارکنان" ویب سائٹ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ داخلہ سیکورٹی فورسز جن کو پولیس کی سپورٹ بھی حاصل تھی ، نمازیوں کو نماز کی جگہ داخل ہونے سے روک دیا اور زبردستی داخلے کی کوشش کرنے والے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔
 بقیہ نمازیوں کے احتجاج کے نتیجے میں کچھ دیر بعد گرفتار شدگان کو رہا کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز اور پولیس کے اہل کاروں نے نمازیوں کے ساتھ بُرا رویہ اختیار کیا اور کسی بھی عدالتی وارنٹ اور محاصرے کی وجہ کے بغیر ہی جائے نماز پر دھاوا بول دیا۔
عینی شاہدین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ سیکورٹی فورسز اس مقام پر عیدالفطر کی نماز ہونے سے روکنا چاہتی ہیں تاکہ نماز کی ادائیگی کے لیے ہزاروں سنیوں کو ایک جگہ جمع نہ ہونے دیا جائے۔
ایرانی دارالحکومت کے مختلف علاقوں سے دس لاکھ سے زیادہ سنی نماز کی ادائیگی اور عبادت کے لیے اس جائے نماز پر آتے ہیں۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی حکام کی جانب سے عائد پابندیوں کے سبب تہران میں سنیوں کی کوئی مسجد نہیں ہے۔

Friday 1 July 2016

’ایران مسئلہ القدس پر سودے بازی کی سازش کر رہا ہے‘


سابق فلسطینی چیف جسٹس کی ایرانی پالیسیوں پر کڑی تنقید
فلسطین کے ایک سابق چیف جسٹس اور سرکردہ رہ نما الشیخ ڈاکٹر تیسیر التمیمی نے الزام عاید کیا ہے کہ ایران عالمی یوم القدس منانے کی آڑ میں بیت المقدس کے معاملے پر سودے بازی کی سازش کررہا ہے۔
 سابق فلسطینی چیف جسٹس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بیت المقدس کے دفاع اور اس کی آزادی کے حوالے سے ایران نے جتنے بھی بلند بانگ نعرے اختیار کیے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہیں اور ایران مسئلہ فلسطین کی آڑ میں اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لے سودے بازی کررہا ہے۔
ایرانی ٹی وی "سیمائے آزادی" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں الشیخ تیسیر تمیمی نے کہا کہ سنہ 1979ء میں ایران میں برپا ہونے والے خمینی انقلاب کےبعد رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو اسرائیل کےخلاف اور القدس کی آزادی کا ایک جھوٹا نعرہ اختیار کیا گیا۔ 
انہوں نے کہا کہ آیت اللہ علی خمینی نے اپنے نعرے کو ’یوم القدس‘ کا نام دیا۔ اس نعرے کے باوجود ایران کے نائب وزیر دفاع نے 133 ملین ڈالر مالیت کی اسرائیل سے اسلحہ کی خریداری کی ڈیل کی منظوری دی۔
 میں پوچھتا ہوں کہ یہ اسلحہ کس کےخلاف استعمال ہوا۔ کیا عراقی عوام کے خلاف، عرب اقوام اور مسلمانوں کے خلاف یہ اسلحہ استعمال نہیں کیا گیا۔
فلسطین کے سابق قاضی القضاۃ نے کہا کہ خود آیت اللہ خمینی نے دنیا کو دھوکہ دینے اور مسلمان ممالک کو گمراہ کرنے کے لیے’یوم القدس‘ نعرے کا اعلان کیا۔ اس اعلان نے مسلم دیا کو متحدہ نہیں بلکہ مزید تقسیم کیا ہے۔ 
یہ نعرہ مسلمان امہ کے خلاف دھوکہ دہی پرمبنی ایک مذموم کوشش تھی جس کا مقصد مسلم دنیا میں ایک دوسروں کی گردنیں اڑانے کے کلچر کو فروغ دینا تھا۔
سابق فلسطینی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی امداد اور اخلاقی حمایت کے باب میں بھی تہران کی پالیسیاں کھل کرسامنے آگئی ہیں۔ 
ایران نے فلسطینی دھڑوں کو باہم متحد کرنے کے بجائے انہیں آپس میں الجھانے کی سازشوں میں مدد کی۔ حالانکہ تہران کو معلوم ہے کہ فلسطینیوں کی باہمی رسا کشی اور بے اتفاقی کا فایدہ صرف قابض صہیونی ریاست کو پہنچ سکتا ہے۔