Friday 17 June 2016

غلط فہمی میں نہ رہیں یہ پاکستان یا افغانستان نہیں بلکہ یہ ایران کے شہر چابھار ہے

خامنہ ای نے ہندوستان کے وزیر ا‏عظم نریندر مودی اور اس کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں  ایران اورہندوستان کے درمیان باہمی  تعلقات کو فروغ دینے کا خير مقدم کرتے ہوئے کہا : ایران اور ہندوستان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے میں چابہار بندرگاہ بہت ہی اہم اور مفید ہے۔ 
یہ وہی شہر ہے کہ جس پر افغانستان ، ایران اور ہندوستان ایک بندرگاہ بنانے میں مصروف ہیں ۔
 اور یہاں کے بلوچ اہلسنت کے یہ بدقسمتی دیکھ رہے ھو کہ ان کے کیا حال اور کیا زندگی ہے ۔ اگر یہ شہر روافض کے ہوتے تو تم لوگ بھی  اسے تباہ یا پسماندہ نہیں دیکھتے کیونکہ ایرانی روافض حکومت اپنے روافض کے لیے جتنا ھوسکے اپنے سارے سرمایہ خرچ کرے گا ۔
 لیکن بلوچ اہلسنت کو پس پشت چھوڑ دیا ہے ۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی روافض حکومت اہلسنت سے خوش نہیں ۔ 
آئے روز کئی بے گناہ اہلسنت کو گولی مار کر شہید کیا جاتا ہے یا بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر اپنے جیلوں میں ڈال دیتا ہے ۔ 

Tuesday 7 June 2016

جیش العدل کے مجاھدین نے ایران کے فوجی کیمپ میں بم دھماکے کیے

جیش العدل کے مجاھدین نے ایران کے شہر سراوان کے علاقے سیب و سوران کے فوجی کیمپ میں 2016 ، 06 ، 07 ، کو ایک ریموٹ بم دھماکے کیے جس سے کئی ایرانی فوجی ہلاک و زخمی ھوئے ، 
 الحمدللہ مجاھدیں فدائیان جیش العدل کے مجاھدین بحفاظت اپنے کیمپ میں پہنچ گئے ۔ 
جیش العدل کے مجاھدین ایرانی روافض افواج و خامناہ ای اور اسکے مزدوروں کو خبردار کرتے ھوئے کہتے ہیں کہ جب تک بے گناہ اہلسنت کے پکڑ دھکڑ اور پانسی کو نہ روکھا گیا تو جیش العدل کے جان فدا مجاھدین ایسے حملے کرتے رہیں گے اور ایران کو رافضیوں کے قبرستان بنادیںگے ۔   ان شاء اللہ

Saturday 4 June 2016

ایرانی انقلاب درحقیقت امریکی انقلاب ہے"۔

خمینی کی جانب سے کینیڈی اور کارٹر کو منانے کا انکشاف !
لندن سے شائع ہونے والے عربی روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق کچھ روز قبل منظرعام پر آنے والے امریکی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ ایران میں ولایت فقیہ کے نظام کا بانی خمینی، گزشتہ صدی میں ساٹھ کی دہائی سے لے کر اپنے پیرس سے تہران پہنچنے اور 1979 میں انقلاب کے اعلان سے چند روز پہلے تک امریکی حکومت کے ساتھ رابطے میں تھا۔
امریکی سی آئی اے کی جانب سے جاری دستاویز سے واضح ہوتا ہے کہ خمینی نے نومبر 1963 میں ایران میں جیل سے رہائی پانے کے کچھ ماہ بعد، امریکا کے سابق صدر جان کینیڈی کے ساتھ خفیہ پیغامات کا تبادلہ کیا۔
 ان پیغامات میں خمینی نے درخواست کی کہ "امریکی صدر اس کی لفظی نکتہ چینی کو غلط معنی میں نہ لیں کیوں کہ وہ ایران میں امریکی مفادات کی حفاظت کر رہا ہے"۔
خمینی کی 27ویں برسی سے چند روز قبل سامنے آنے والے دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی نظام کا بانی ملک میں ان سماجی اقتصادی اصلاحات پر طیش میں آنے کے بعد امریکی صدر سے رابطے کے لیے متحرک ہوا جو ایران میں سابق نظام حکومت نے کی تھیں۔ 1963 میں "سفید انقلاب" کے نام سے معروف ان اصلاحات کے ذریعے سابق نظام نے جاگیر داروں کی زمینوں کو کاشت کاروں میں تقسیم کردیا اور پہلی مرتبہ خواتین کے ووٹ کا حق تسلیم کیا گیا۔ 
برطانوی نشریاتی ادارے کے فارسی چینل کی رپورٹ کے مطابق خمینی نے ان اصلاحات کو "اسلام کے لیے خطرہ" شمار کیا جب کہ "شہنشاہ ایران" کے مخالفین اس کو رائے عامہ کے لیے دھوکے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ 
بعد ازاں 1962 میں "نوروز" کے تہوار کے دن خمینی نے سوگ کا اعلان کر ڈالا۔ خمینی کا موقف تھا کہ "ظالم نظام حکومت کا مقصد عورت اور مرد کے حقوق برابر کر دینے کا فیصلہ کرنا ہے"۔
دستاویزات کے مطابق خمینی نے 19 جنوری 1979 کو یعنی ایرانی انقلاب سے چند ہفتے قبل ثالثیوں کے ذریعے امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ کے ساتھ بھی رابطہ کیا۔ 
خمینی نے اس وقت یہ عہد کیا تھا کہ وہ مغرب کو تیل کی فراہمی منقطع نہیں کرے گا، ایرانی انقلاب خطے کے دیگر ممالک تک نہیں پہنچایا جائے گا اور وہ امریکی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں گے۔
مذکورہ امریکی دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد ایرانی ذمہ داران کی جانب سے ابتدائی طور پر شدید غم و غصے پر مبنی رد عمل سامنے آیا ہے۔ 
اس سلسلے میں "میزان" نیوز ایجنسی کے مطابق قُم کے علمی مرکز کے رکن حسین ابراہیمی کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات کو جاری کرنے کا مقصد " یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ (ایرانی) انقلاب درحقیقت امریکی ہے"۔

Thursday 2 June 2016

جیش العدل نے پاکستان کے شہر مند اور بلو میں پمپلیٹ بیان اور ہوائی فائیرنگ کی مزمت اور سخت تردید کی

مقبوضہ شرقی بلوچستان کے علاقے مند بلو میں ہمارے تنظیم کے نام سے کچھ بلوچ دشمن مسلح گروہ نے ہوائی فائرنگ اور کچھ  پمپلیٹ بیان جاری کیا گیا ہے جس کی ہم مزمت اور سخت تردید کرتے ہیں ان عناصروں سے جیش العدل کا کوئی تعلق نہیں ہے 
اس طرح کے بیانات , پروپیگنڈا ہمیشہ سے ہمارے نام پر کئیے جارہے ہیں جو ہم سجمھتے ہیں یہ دشمن ریاست کے معاون اور بلوچ قوم کے غدار ہیں جو اپنے زاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بلوچ قوم کے اندر خوف ہراس پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں
  کچھ بلوچ دشمن عناصر عرصہ دراز سے اسی علاقے میں ہمارے نام استعمال کرکے اپنے آپ کو محفوظ کرنے میں گوشہ ہیں جن کو تمام اہل علاقہ اور بلوچ تنظیمیں اچھی طرح واقف ہیں 
جیش العدل ان عناصروں کو تنبیہ کرتا ہے ہمارا نام استعمال نہ کریں اور اس طرح کے بلوچ دشمن حرکتوں کو ترق کردیں ورنہ ھم یہ نہیں دیکھے گے کہ کس قبیلے اور کس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے زمہ دار خود ہونگے 
اور ہم بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں وہ ان غیر مصدقہ بیاناتوں اور عناصروں پر یقین نہ کریں ہمارے تنظیم کا کوئی ممبر ان علاقوں میں نہیں ہیں  ہمارے تمام بیانات اپنے ویب سائٹ اور زمہ دار بلوچ میڈیا پر شائع ہوتے ہیں اور ہمارے تنظیم کی شرقی بلوچستان میں کوئی دخل اندازی نہیں ہے... 

دادا نے پھانسیاں نہ دی ہوتیں تو نظام باقی نہ رہتا : علی خمینی

گزشتہ مارچ میں اقوام متحدہ نے ایران میں انسانی حقوق سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں پھانسی کی سزا کی "پریشان کُن" بڑھتی ہوئی شرح پر روشنی ڈالی گئی تھی جن میں کم عمر افراد کو سزائے موت بھی شامل ہے۔ 
اسی طرح جنوری میں بھی ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں ایران میں کم عمر افراد کی سزائے موت کوتنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جو کہ خطے میں بلند ترین سطح پر ہے۔
 تاہم ان تمام امور کے باوجود ایران میں "ملائیت کے نظام کے بانی خمینی کا پوتا اس جانب متوجہ نظر نہیں آتا۔
ایران کے مرشد اوّل خمینی کے پوتے علی خمینی نے اپنے دادا کے دور اقتدار میں وسیع پیمانے پر دی جانے والی پھانسیوں کا مکمل دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے انتظامی امور میں خمینی کی سخت گیری، انقلاب کے بعد ایرانی نظام کے جاری رہنے کی بنیادی وجہ ہے۔
قم کے علمی مرکز میں اپنے خطاب کے دوران علی خمینی نے "بہار عرب" اور ایرانی انقلاب کا موازنہ کیا۔ انہوں نے 1979 میں خمینی کی جانب سے انقلاب کے اعلان پر ایران کے چار علاقوں احواز، کردستان، بلوچستان اور آذربائیجان میں نظر آنے والی شورشوں کا حوالہ دیا۔
عربی روزنامے "الشرق الاوسط" کے مطابق علی خمینی نے بتایا کہ ان کے دادا مذکورہ بحرانی کیفیت سے نمٹنے میں کامیاب رہے اور ملک میں پھر سے امن و سکون واپس آگیا، اگر اس موقع پر "وہ لچک کا مظاہرہ کرتے تو پھر تیس برس بعد یہ ملک پرسکون نہ ہوتا"۔
خمینی کے پوتے کا یہ بیان منگل کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق کمیشن کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کمیشن نے ایرانی حکام کی جانب سے گزشتہ جمعے کو مغربی صوبے آزربائیجان میں سونے کی کان میں کام کرنے والے 17 کارکنوں کو کوڑے مارے جانے کی مذمت کی۔
 اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے جامعہ قزوین کے 35 طلبہ کو بھی کوڑے لگائے جانے کی مذمت کی۔ ان طلبہ نے جامعہ کی انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر طلبہ کی جانب سے منعقدہ گریجویشن پارٹی میں شرکت کر لی تھی۔
اقوام متحدہ نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق ان میثاقوں کی پاسداری کرے جن پر وہ ماضی میں دستخط کرچکا ہے۔