Monday 23 July 2018

عالمی برادری ایران کے تخریبی کردار کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرے : شہزادہ خالد

امریکا میں متعیّن سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ مغرب اور تمام ممالک کو ایرانی رجیم کے تخریبی کردار سے نمٹنے کے لیے متحد ہونے اور ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے یہ بات سوموار کو سعودی روزنامے عرب نیوز میں شائع شدہ ایک مضمون میں لکھی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ آج بھی حالات 1938ء ایسے ہیں ۔
اس وقت یورپ ، ایشیا اور افریقا میں توسیع پسندانہ عزائم کی حامل قوتوں نے بین الاقوامی امن کو تہ وبالا کیا تھا اور آج 80 سال کے بعد بالکل اسی طرح کا ایران کی صورت میں خطرہ درپیش ہے ۔
وہ اپنی سرحدوں سے باہر تنازعات کو ہوا دے رہا ہے اور انتہا پسند گروپوں کو مسلح کررہا ہے۔
شہزادہ خالد نے اپنی تحریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران سے جوہری سمجھوتے سے علاحدگی کے فیصلے کوسراہا ہے اور لکھا ہے کہ ’’یہ سمجھوتا ایرانی نظام کی توسیع پسندانہ خواہشات کو روک لگانے اور خطے میں انتہا پسند گروپوں کی حمایت سے باز رکھنے میں ناکام رہا ہے ’’ ۔
’’ ہمیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس موقف سے حوصلہ ملا ہے کہ امریکا ایران سے کسی قسم کی مصالحانہ پالیسی کو بروئے نہیں لائے گا کیونکہ ماضی میں ایسی پالیسیاں نازی جرمنی کو طاقت بننے یا ایک مہنگی کو جنگ رونما ہونے سے روکنے میں بری طرح ناکام رہی تھیں ۔
اس لیے اب ہمیں ایرانی نظام کے تخریبی کردار سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع تر حکمت عملی اپنانے اور متحد ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔ 

ٹرمپ نے روحانی کو ایسے نتائج کی دھمکی دے دی جن کا تاریخ میں بہت کم سامنا ہوا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ "خبردار ! اگر آپ نے دوبارہ امریکا کو کوئی دھمکی دی تو آپ کو ایسے نتائج بھگتنا ہوں گے جن کا سامنا تاریخ میں چند لوگوں کے سوا کسی کو نہیں کرنا پڑا"۔
ٹرمپ نے اپنی ٹوئیٹ میں روحانی کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا کہ "ہم کوئی ایسی ریاست نہیں جو تشدد اور موت کے حوالے سے آپ کے انتشار انگیز الفاظ کے ساتھ مروّت کا معاملہ کرے۔
 لہذا ہوش کے ناخن لیجیے !۔ "
ٹرمپ نے باور کرایا کہ "ہم امریکا کے لیے دوبارہ کوئی دھمکی ہر گز قبول نہیں کریں گے"۔
واشنگٹن خوف زدہ نہیں ہے : پومپیو
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن ایرانی نظام کو اعلی ترین سطح پر نشانہ بنانے سے "خوف زدہ نہیں" ہے۔
 اُن کا اشارہ ایران میں عدلیہ کے سربراہ علی صادق لاریجانی پر واشنگٹن کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کی جانب تھا۔
 پومپیو کے مطابق یہ نظام "ایرانی عوام کے لیے ایک بھیانک خواب" کی حیثیت رکھتا ہے۔
کیلیفورنیا میں ایرانی کمیونٹی کے سامنے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ "ایرانی رہ نماؤں کی دولت اور ان کی بدعنوانی سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کو کوئی حکومت نہیں بلکہ مافیا سے ملتی جلتی چیز چلا رہی ہے"۔
پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی صدر روحانی اور وزیر خارجہ ظریف بین الاقوامی سطح پر مُلّائیت کے فریبی نظام کے دو چمکتے دمکتے چہرے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایران میں احتجاج کرنے والوں کے لیے اپنی سپورٹ باور کراتے ہوئے کہا کہ "یہ امر ایرانیوں سے وابستہ ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کا تعیّن کریں"۔
 پومپیو نے زور دے کر کہا کہ امریکا ایرانی عوام کی آواز کی حمایت کرے گا جس کو طویل عرصے تک نظر انداز کیا گیا۔
امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ان کا ملک یہ امید رکھتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک چار نومبر تک ایرانی تیل سے متعلق اپنی برآمدات صفر کی سطح کے قریب ترین پہنچا دیں گے۔ 
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پہلوتہی کرنے والے ممالک کو بھی امریکا کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پومپیو نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت چوبیس گھنٹے چلنے والے فارسی زبان کے ایک ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن کا آغاز کرے گی، ان کے علاوہ ڈیجیٹل آلات اور سوشل میڈیا کو بھی استعمال میں لا کر ایران اور دنیا بھر میں ایرانی باشندوں تک پہنچا جائے گا۔
ایران کی تقسیم
ٹرمپ اور پومپیو کے مواقف ایرانی صدر حسن روحانی کے اُس بیان کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے اتوار کے روز اپنے ملک کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "امریکا نے اپنی حکمت عملی پابندیوں، تہران کے نظام کے سقوط اور ایران کو توڑ دینے کی بنیاد پر ترتیب دی ہے"۔
دارالحکومت تہران میں ایرانی سفارت کاروں کے مجمعے کے سامنے روحانی نے ایران اور امریکا کے درمیان ممکنہ عسکری مقابلے کے حوالے سے کہا کہ یہ "جنگوں کی ماں" ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ وقت میں واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کرنا ایران کی جانب سے "ہتھیار ڈالنا" شمار ہو گا۔

Thursday 12 July 2018

یورپی یونین ایرا ن کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرے : امریکی وزیر خارجہ

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یورپی طاقتوں پر زور دیاہے کہ وہ ایران کو توانائی کی عالمی مارکیٹ سے نکال باہر کرنے کے لیے امریکی اقدامات کی حمایت کرے۔
مائیک پومپیو نے برسلز میں جمعرات کو یورپی یونین اور امریکا کی مشترکہ توانائی کونسل کے اجلاس سے قبل ٹویٹر پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ننگی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقِ اوسط میں اسلحہ بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ایرانی رجیم ہر کہیں جہاں اس کا بس چل سکتا ہے، شورش پیدا کرنا چاہتا ہے ۔
یہ ہماری ذمے دار ی ہے کہ ہم اس کو روکیں ‘‘۔
اس اجلاس میں امریکا کے توانائی کے وزیر ریک پیری اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مغرینی بھی شرکت کررہی تھیں ۔
اس اجلاس سے چندے قبل پومپیو نے ٹویٹر پر لکھا:’’ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے کہتے ہیں کہ وہ ایرانی رجیم کے خلاف اقتصادی دباؤ کی مہم میں ہمارا ساتھ دیں ‘‘۔
انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ’’ ہمیں ایرانی رجیم کو تمام رقوم کی فراہمی روک دینی چاہیے ۔وہ ان رقوم دہشت گردی اور گماشتہ جنگوں پر صرف کررہا ہے۔
ایران کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کب دہشت گردی ، تشدد اور عدم استحکام کو ہمارے ممالک کے خلاف استعمال کر گزرے‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ نے اس ٹویٹ کے ساتھ یورپ کا ایک نقشہ بھی جاری کیا ہے۔اس میں گیارہ مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے جہاں امریکی حکام کو یقین ہے کہ ایران اور اس کی گماشتہ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ نے 1979ء کے بعد سے دہشت گردی کے حملے کیے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 8 مئی کو ایران کے ساتھ 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اورا س کے بعد ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں ۔
 اس کے بعد امریکی حکام کئی بار خبردار کرچکے ہیں کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں پر بھی امریکی پابندیاں عاید کی جاسکتی ہیں ۔
صدر ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر امریکا کے یورپی اتحادی ابھی تک تشویش میں مبتلا ہیں اور انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے عالمی سطح پر تیل کی رسد پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور مشرق ِ اوسط میں ایک نیا تنازع پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔
ایران سے جوہری سمجھوتے کے فریق پانچ دوسرے ممالک برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، روس اور چین نے امریکا کی تائید اور پیروی نہیں کی ہے اور وہ بدستور سمجھوتے میں شامل ہیں ۔
ایران نے بھی اس سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی ہے۔
اس سمجھوتے کے فریق تین مذکورہ مغربی ممالک اب ایران سے کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں کو امریکا کی پابندیوں سے بھی بچانا چاہتے ہیں۔

ایران خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں بند کرے: نیٹو

معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم ’نیٹو‘ نے مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایران کی بڑھتی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تہران پر زور دیا کہ وہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں بند کرے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق برسلز میں ہونے والے ’نیٹو‘ کے سربراہ اجلاس میں ایران کی مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیداکرنے کی سرگرمیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
 اس موقع پر جاری ایک بیان میں ایران کے میزائل پروگرام اور آئے روز میزائل تجربات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
’نیٹو‘ اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دفاعی اہداف کے لیے حصول کے لیے ضروری اخراجات کا پابند ہے۔ ’نیٹو‘ کو ایران، روس اور شمالی کوریا کی سرگرمیوں پر بھی گہری تشویش ہے۔
’نیٹو‘ ممالک کی قیادت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کر دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’نیٹو‘ ممالک دفاع کے لیے بہت کم پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ ان کے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’نیٹو‘ کے رکن ممالک اخراجات کے مشترکہ توازن کو برقرار رکھنے اور اتحاد کی رکنیت کے تمام تقاضے پورے کر رہے ہیں۔
’نیٹو‘ میں شامل رکن ممالک نے عالمی امن وسلامتی پر اثر انداز ہونے کی روسی کوششوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روس سابق برطانوی جاسوس سیرگی اسکریپال پر مہلک اعصابی گیس کے حملے میں قصور وار ہے۔
 اتحاد نے مقدونیا سے نیٹو میں شمولیت کے لیے دوبارہ مذاکرات پر زور دیا۔
ادھر وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی مجموعی سالانہ پیداوار کا 4 فیصد دفاعی اخراجات پرصرف کریں۔ نیٹو کی طرف سے دفاعی اخراجات کے لیے سنہ 2024ء تک اپنی پیداوار کا محض 2 فی صد خرچ کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

پیرس: مظاہرین کا ایرانی سفارت کار "اسدی" کو تہران کے حوالے نہ کرنے کا مطالبہ

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایرانی اپوزیشن کے درجنوں حامیوں نے منگل کے روز فرانسیسی وزارت خارجہ کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کیا۔
 مظاہرین ایرانی سفارت خانے میں کام کرنے والے سفارت کار اسد اللہ اسدی کو تہران کے حوالے کیے جانے کی خبروں پر احتجاج کر رہے تھے۔
 اسدی پر الزام ہے کہ اس نے ایک دہشت گرد کو بم حوالے کیا تھا جس نے 30 جون کو پیرس میں ایرانی اپوزیشن کی کانفرنس میں دھماکے کی ناکام کوشش کی
مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے جن میں دہشت گرد سفارت کار کو تہران کے حوالے نہ کیے جانے، ایرانی سفارتی مشنوں کے دفاتر بند کر دینے اور ایرانی حکومت کے سفیروں کو بے دخل کر دینے کے مطالبات کیے گئے تھے۔
ادھر ایرانی مزاحمت کی قومی کونسل کے ارکان کا کہنا ہے کہ ملزم کے سالانہ کانفرنس پر دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے ثبوت کے باوجود اسے تہران کے حوالے کر دیے جانے کا اندیشہ ہے۔
ایرانی اپوزیشن کی تنظیم مجاہدینِ خلق کے کارکنان نے منگل کی دوپہر پیرس کے "انولیڈ" اسکوائر پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور ملزم سفارت کار کے خلاف عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرے کے منتظمین کے مطابق اس طرح کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں کہ ایرانی نظام فرانس، جرمنی اور بیلجیم کے خلاف دباؤ کا استعمال کر رہا ہے تا کہ مذکورہ سفارت کار کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔ 
آسٹریا پہلے ہی اس سفارت کار کو حاصل سفارتی مامونیت واپس لے چکا ہے۔
یورپی ذرائع نے اعلان کیا تھا کہ جرمنی 47 سالہ اسد اللہ اسدی کو بیلجیم کے حوالے کرنے کی تیاری کر رہا ہے تا کہ اسدی کو 38 سالہ امیر سعدونی (حملہ آور) اور 33 سالہ خاتون نسیمہ نومنی کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جا سکے۔
 آخری دونوں افراد ایرانی باشندے ہیں جن کے پاس بیلجیم کی شہریت ہے۔ مذکورہ دونوں افراد نے بتایا کہ انہیں کارروائی سے ایک روز قبل اسدی کی جانب سے لیگزمبرگ میں ایک بم حوالے کیا گیا تھا۔

Monday 9 July 2018

ایرانی کشتیوں سے امریکی بحری بیڑے کواب کوئی خطرہ نہیں رہا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ رواں سال سے خلیج میں موجود ہمارے بحری بیڑے کو ایرانی جنگی کشتیوں سے لاحق خطرات ختم ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایران خلیج میں موجود ہماری فوج اور جنگی بیڑے کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے مگر اب یہ دھمکیاں ماضی کا قصہ ہیں۔ پچھلے برسوں کے دوران ایران نے دسیوں بار سمندر میں ہماری فوج کی راہ روکنے اور خطرہ بننے کی کوشش کی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ 'ٹوئٹر' پر پوسٹ کی گئی متعدد ٹویٹس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ سال 2015ء کے دوران ایران نے سمندر میں 22 بار ہمارے مشن میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ 2016ء میں ایران کےجارحانہ واقعات کی تعداد 36 تک جا پہنچی جب کہ 2017ء میں بہ تدریج کمی آئی اور ایران کی طرف سے 14 بار ہمارے لیے مشکلات پیدا کی گئیں۔ رواں سال کے دوران اب تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ چار برسوں کے دوران خلیجی پانیوں میں موجود امریکی فوج اور ایرانی پاسداران انقلاب کے درمیان کئی بار تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔

Sunday 8 July 2018

ہالینڈ کی فضائی کمپنی کا ایران کے لیے پروازیں روک دینے کا اعلان

 آئندہ ستمبر سے دارالحکومت ایمسٹرڈم سے تہران کے لیے اپنی پروازیں روک دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "منفی اقتصادی توقعات کے پیشِ نظر کمپنی نے رواں برس 24 ستمبر سے تہران کے لیے اپنی پروازیں روک دینے کا فیصلہ کیا ہے"۔
کمپنی نے اپنے فیصلے کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائیں تاہم یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تہران پر امریکی پابندیاں دوبارہ سے عائد ہونے جا رہی ہیں اور یورپ میں دہشت گرد کارروائیوں کی کوشش کرنے والے ایرانیوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
ہالینڈ کی فضائی کمپنی نے 2013ء میں ایران کے لیے اپنی پروازیں روک دی تھیں۔ تاہم جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد 2016ء میں KLM نے ایک بار پھر تہران کے لیے اپنی پروازوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
ہالینڈ کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب کہ فرانس ، جرمنی اور آسٹریا تینوں بیلجیم کے ساتھ تعاون میں مصروف ہیں تا کہ 30 جون کو پیرس میں ایرانی تنظیم "مجاہدینِ خلق" کی کانفرنس پر ناکام بم حملے کے منصوبہ ساز کو حوالے کیا جا سکے۔ 
یہ شخص جرمنی میں گرفتار کیا جانے والا 47 سالہ ایرانی سفارت کار اسد اللہ اسدی ہے۔ آسٹریا نے اس سفارت کار سے سفارتی مامونیت واپس لے لی ہے۔ اس اقدام کا مقصد برسلز میں اس سفارت کار اور دونوں حملہ آوروں کے خلاف عدالتی کارروائی کی راہ ہموار کرنا ہے۔
 دونوں حملہ آوروں کا تعلق ایران سے ہے اور ان کے پاس بیلجیم کی شہریت ہے۔ ان کے علاوہ 3 دیگر افراد بھی ہیں جن کو فرانس سے گرفتار کیا گیا۔

Sunday 1 July 2018

ایران سے کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں پر امریکا پابندیاں عاید کر دے گا: ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ ایران سے کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں پر امریکا پابندیاں عاید کردے گا۔
 انھوں نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پر تیل کی عالمی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کا الزام عاید کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سلسلے کو بند کردیا جائے۔
انھوں نے فاکس نیوز کے پروگرام سنڈے مارننگ فیوچرز کی میزبان ماریہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ اگر کوئی تیل کی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کررہا ہے تو یہ اوپیک ہے۔
اس تنظیم کے رکن ممالک کو یہ سلسلہ بند کردینا چاہیے کیونکہ ہم ان میں سے بہت سے ممالک کو تحفظ مہیا کررہے ہیں‘‘۔
اتوار کو نشر ہونے والے اس نیوز پروگرام میں جب صدر ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں پر پابندیاں عاید کردیں گے؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا:’’ جی ہاں ، یقیناً ۔ہم یقینی طور پر یہی کچھ کریں گے‘‘۔

سال بھر کے اندر ایرانی نظام کا سقوط ہو جائے گا : مُشیرِ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قانونی مشیر روڈی جولیانی کے مطابق "اگر ہم یہ کہیں کہ ایرانی نظام کا اختتام قریب ہے تو یہ حقیقت سے دُور نہ ہو گا"۔
 انہوں نے کہا کہ تہران میں نظام کا سقوط ایک سال کے دوران واقع ہو جائے گا۔
ہفتے کےروز "مجاہدینِ خلق" کے زیر قیادت ایرانی قومی کونسل برائے مزاحمت کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جولیانی کا کہنا تھا کہ "ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور تشدد اور ہلاکتوں کی تعداد یہ باور کراتی ہے کہ آزادی بہت قریب ہے اور اس نظام کا سقوط نا گزیر ہے"۔
جولیانی کے مطابق 2009ء میں ایسا ہو سکتا تھا تاہم امریکی حکومت اُس وقت ایرانی عوام کے احتجاج کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی، تاہم اب امریکی صدر کی جانب سے ایران میں مظاہرین کے لیے سپورٹ کا اظہار کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کے مشیر نے یورپی ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے ایرانی نظام کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
 جولیانی کے مطابق یورپی ممالک ایسے نظام کو رقوم کی ادائیگی کر رہے ہیں جو خواتین اور بچوں کو حقوق سے محروم کرتا ہے اور لوگوں کو قتل کر رہا ہے محض اس واسطے کہ اُن کا نظریہ یا مذہبی پس منظر مختلف ہے۔
جولیانی نے ایرانی نظام کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ اور تہران پر عائد پابندیاں سخت کرنے کا مطالبہ کیا۔
ٹرمپ کے مشیر نے امریکی صدر کے ایرانی جوہری معاہدے سے علاحدگی اختیار کرنے کے فیصلے کو سراہا۔
 جولیانی نے اس معاہدے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ یہ باور کرا چکے ہیں کہ وہ دنیا میں دہشت گردی کی سب سے بڑی سرپرست ریاست کے ساتھ ہر گز معاملات نہیں کریں گے۔
جولیانی کے نزدیک ایران میں ایک غیر جوہری اور جمہوری ریاست تشکیل دینے کے لیے متبادل موجود ہے جو انسانی حقوق کا احترام کرے اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
 انہوں نے زور دیا کہ حالیہ احتجاج 2009ء سے مختلف ہیں کیوں کہ اس مرتبہ مظاہرے پورے ایران میں ہو رہے ہیں جن میں ہر طبقہ شامل ہے۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر ٹرمپ کے مشیر نے کہا کہ "ایران میں اب تبدیلی کا وقت آ چکا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ برس یہ کانفرنس تہران میں ہو گی"۔
احتجاج سے تہران کمزور پڑ رہا ہے
دوسری جانب امریکی اور عرب وفود نے ایرانی اپوزیشن کی کانفرنس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ خطّے میں ایرانی نظام کا مقابلہ بین الاقوامی طور سے کیا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اسٹریٹجک مشیر نیوٹ گینگرچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ "خامنہ ای کا نظام ساطق سوویت یونین سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔
 حالیہ احتجاجی سلسلے کے علاوہ ایران میں شہریوں کی معاشی حالت نے ایرانی نظام کو کمزور کرنا شروع کر دیا ہے"۔
ادھر فرانس میں یمن کے سفیر ریاض یاسین نے یمنی صدر عبد ربّہ منصور ہادی کی جانب سے ایرانی عوام کے سلام پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم ایرانی نظام کی کُھلی اور دشمنانہ مداخلتوں پر روک لگانے کے لیے مل کر کام کریں گے جس نے تمام حدوں کو پار کر لیا ہے"۔